1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پی ٹی آئی کا قافلہ اسلام آباد میں داخل، کشیدگی میں اضافہ

عثمان چیمہ
25 نومبر 2024

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو ڈی چوک پہنچنے کے لیے ابھی سینکٹروں رکاوٹوں کو عبور اور سکیورٹی اہلکاروں کا سامنا کرنا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اجتجاج میں طوالت حکومت اور پی ٹی آئی دونوں کے لیے مشکلات کھڑی کر سکتی ہے۔

https://p.dw.com/p/4nPi5
 پی ٹی آئی کے اس قافلے میں سینکڑوں گاڑیاں، ویگنیں اور بسیں شامل ہیں۔ قافلے میں شامل کارکنان خاصے پرجوش دکھائی دیتے ہیں
 پی ٹی آئی کے اس قافلے میں سینکڑوں گاڑیاں، ویگنیں اور بسیں شامل ہیں۔ قافلے میں شامل کارکنان خاصے پرجوش دکھائی دیتے ہیںتصویر: ABDUL MAJEED/AFP

پاکستان تحریک انصاف کا احتجاجی قافلہ ایک روز کی تاخیر سے بالا آخر آج  پیر کی شام اسلام آباد کی حدود میں داخل ہو گیا۔  اس قافلے کی قیادت وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ علی امین گنڈہ پور اور جیل میں قید سابق وزیر اعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کر رہے ہیں۔

 پی ٹی آئی کے اس قافلے میں سینکڑوں گاڑیاں، ویگنیں اور بسیں شامل ہیں۔ قافلے میں شامل کارکنان خاصے پرجوش دکھائی دیتے ہیں اور وہ عمران خان کی رہائی کے حق میں اور حکومت مخالف نعرے بازی کر رہے ہیں۔ اس دوران اسلام آباد کی انتظامیہ نے شہر کے تمام تعلیمی ادارے کل بروز منگل مسلسل دوسرے دن بھی بند رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کے مطابق شہر بھر میں تمام نجی و سرکاری تعلیمی ادارے بروز منگل بند رہیں گے۔

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو ڈی چوک پہنچنے کے لیے ابھی سینکٹروں رکاوٹوں کو عبور اور سکیورٹی اہلکاروں کا سامنا کرنا ہے
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو ڈی چوک پہنچنے کے لیے ابھی سینکٹروں رکاوٹوں کو عبور اور سکیورٹی اہلکاروں کا سامنا کرنا ہےتصویر: Salahuddin/REUTERS

’آخری منزل‘ ابھی بھی دور

 تبصرہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اسلام آباد کی حدود میں داخل ہونا ایک  بات اور قافلے کی منزل یعنی ڈی چوک پہنچنا ایک دوسرا اور زیادہ چیلنجنگ معاملہ ہے۔

اس ضمن میں مظاہرین کو حکومت کی جانب سے کھڑی کی گئیں سینکڑوں رکاوٹیں عبور کرنے کے ساتھ ساتھ پولیس، فرنٹئیر کانسٹیبلری (ایف سی) اور رینجرز کے اہلکاروں کا سامنا کرنا ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی تک  پی  ٹی آئی کے مظاہرین  وفاقی دارالحکومت کے اندر کسی مقام پر جمع ہوتے نظر نہیں آئے۔

سابق وزیر اعظم اور ممتاز سیاستدان شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ اگر تاخیر اور دباؤ برقرار رکھنا پی ٹی آئی کی حکمت عملی ہے، تو یہ حکومت کے لیے شدید مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔

پاکستان تحریک انصاف نے چوبیس اکتوبر سے لانگ مارچ شروع کرنے اورا ڈی چوک پر دھرنا دینے اور اس وقت تک نہ ختم کرنے کا اعلان کیا تھا جب تک عمران خان کو رہا اور پی ٹی آئی کے کارکنوں کے خلاف درج مقدمات ختم نہیں کیے جاتے۔

پیر کی دوپہر تک ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ حکومت اس دفعہ پی ٹی آئی سے ذیادہ خوفزدہ نہیں ہے کیونکہ پہلے جب بھی پی ٹی آئی احتجاج کی کال دیتی تھی تو شہر کے تمام داخلی اور خارجی راستے بند کر دیے جاتے ہیں جو کہ اس دفعہ جزوی طور  پر کھلے رہے۔ لوگ اپنی ضرورت کے تحت شہر کے مضافات سے شہر میں داخل ہوتے رہے لیکن بہت ذیادہ رش کہیں بھی نہیں دیکھا گیا۔  لیکن پھر جونہی پیر کی شام پی ٹی آئی کا قافلہ اسلام آباد کی حدود میں داخل ہوا ، ایک مرتبہ پھر شہر کے تمام داخلی اور خارجی راستوں کو سختی سے بند کر دیا گیا۔

حکومت نے ڈی چوک کو کنیتیرز لگا کر مکمل طور پر سیل کر رکھا ہے
حکومت نے ڈی چوک کو کنیتیرز لگا کر مکمل طور پر سیل کر رکھا ہےتصویر: Shazia Mehboob/DW

احتجاج کی طوالت، حکومت کے لیے پریشانی

تجزیہ کاروں کا کہنا  ہے کہ پی ٹی آئی کی اسلام آباد کی دہلیز پر آمد نے حکومت کے لیے مشکلا ت کھڑی کر دی ہیں۔ شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی نے حکومت کو پہلے کی نسبت اس مرتبہ زیادہ ٹف ٹائم دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی موجودہ حکمتِ عملی ایک سوچا سمجھا قدم ہے،  ''اگر پی ٹی آئی خیبرپختونخوا اور اسلام آباد کی سرحد پر دھرنا دینے کا فیصلہ کرتی ہے تو حکومت کا دباؤ برداشت کرنے کا وقت محدود ہوگا اور وہ بالآخر کمزور پوزیشن میں آ جائے گی۔''

تاہم ان کے خیال میں اگر دھرنا زیادہ طول پکڑتا ہے تواس صورت میں مظاہرے میں شامل لوگوں کے لیے بھی مسائل بڑھ سکتے ہیں۔ دوسری جانب حکومتی عہدیدار خاص طور پر وزیر داخلہ محسن نقوی بارہا یہ کہہ چکے ہیں کہ ڈی چوک کا رخ کرنے والے ہر شخص کو گرفتار کر لیا جائے گا۔

خاتون صافی اور سیاسی تجزیہ کار ابصا کومل سمجھتی ہیں کہ حکومت کی  لوگوں کو متوقع انجام سے خوفزدہ کر نے کی حکمت عملی نے کسی حد تک کام کیا ہے۔ انہوں نے کہا، ''کیونکہ نو مئی کے واقعات کے بعد، بہت سے افراد کو انفرادی طور پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس نے لوگوں میں خوف پیدا کر دیا ہے کہ انہیں طویل مدت میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جو لوگ بیرون ملک تعلیم یا ملازمت کے لیے جانا چاہتے ہیں، یا اپنے خاندانوں کو خطرے سے بچانا چاہتے ہیں وہ کسی مشکل میں پڑنے سے گریز کر سکتے ہیں۔''

وزیر داخلہ محسن نقوی کا کہنا ہے کہ ڈی چوک آنے والے ہر شخص کو گرفتار کیا جائے گا
وزیر داخلہ محسن نقوی کا کہنا ہے کہ ڈی چوک آنے والے ہر شخص کو گرفتار کیا جائے گاتصویر: Newscom World/Imago Images

صحافی اور سیاسی تجزیہ کار زاہد حسین کا کہنا ہے کہ حکومت نے پی ٹی آئی کی حکمتِ عملی کو محدود کرنے کے لیے پہلے ہی کئی اقدامات کیے ہیں، جن کے تحت پنجاب میں موٹرویز کی بندش بھی شامل ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کا بنیادی مقصد سرکاری مشینری کو جام کرنا ہے، اور یہ مقصد وہ بڑی حد تک حاصل کر چکے ہیں۔ زائد حسین نےکہا، ''پی ٹی آئی کے احتجاج کے طویل ہونے کی صورت میں حکومت پر دباؤ بڑھ جائے گا، ان کے بقول اس صورت میں عوام کو درپیش مشکلات کا الزام حکومت پر آئے گا، نہ کہ اپوزیشن پر۔''

کیا پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان کوئی معاہدہ ہو سکتا ہے؟

اس دوران مقامی زرائع ابلاغ اور سیاسی حلقوں میں  پی ٹی آئی اور حکومت کے مابین بات چیت کی خبریں بھی گردش کر رہی ہیں۔ تاہم  تجزیہ کاروں کی اکثریت دونوں فریقین کے مابین کسی  فوری معاہدے کو خارج از امکان قرار دیتے ہیں۔

خاقان عباسی بھی پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کوئی معاہدہ ہوتے نہیں دیکھتے۔ ان کے مطابق، ''عمران خان کی سیاست محاذ آرائی پر قائم ہے اور کسی بھی معاہدے کی کوشش ان کے سیاسی بیانیے کے خاتمے کا اشارہ دے گی۔ عمران خان کو ملک سے باہر بھیجنا ممکن نہیں کیونکہ وہ خاموش نہیں بیٹھیں گے اور اپنے ایجنڈے کو پھیلانے کے لیے روزانہ مختلف فورمز کا استعمال جاری رکھیں گے۔''

زاہد حسین کہتے ہیں کہ اس بار پی ٹی آئی نے ایک دن کے احتجاج کے بجائے ایک طویل احتجاج کا اعلان کیا ہے، جس سے دونوں فریقوں پر دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان مذاکرات شروع ہو چکے ہیں، لیکن ان کی شرائط ابھی تک واضح نہیں ہیں۔ ان کے مطابق، دونوں فریقوں کے پاس زیادہ گنجائش نہیں ہے۔ حکومت عمران خان کو رہا کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی کیونکہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے خلاف نہیں جا سکتی ۔

قوم 'قیدی نمبر 804' کے ساتھ کھڑی ہے، بیرسٹر گوہر خان