1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پینڈورا پیپرز انکشافات: پاکستانی وزیراعظم کے لیے امتحان

6 اکتوبر 2021

پینڈورا پیپرز میں پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے کچھ قریبی ساتھیوں کے نام بھی شامل ہیں۔ ماہرین ایک بھرپور اور جامع تفتیش کے حوالے سے شکوک کا شکار ہیں۔

https://p.dw.com/p/41Klz
Pakistan Islamabad | Imran Khan, Premierminister
تصویر: Saiyna Bashir/REUTERS

تین اکتوبر کو عام کیے جانے والے پینڈورا پیپرز میں پاکستان کے سات سو اہم اور نمایاں افراد کے نام سامنے آئے ہیں۔ ان میں پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کا نام شامل نہیں ہے۔

پینڈورا پیپرز  میں قریب بارہ لاکھ فائلیں موجود ہیں۔ ان پیپرز میں پاکستان کی طاقتور فوج کے جرنیلوں، کاروباری حضرات، سیاستدانوں اور میڈیا مالکان کے نام شامل ہیں، جنہوں نے آف شور کمپنیوں میں لاکھوں ڈالر جمع کرا رکھے ہیں۔

فن سین فائلز: ’بڑے بینکوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے‘

پاکستانی وزیر اعظم کی کابینہ کے اراکین

پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے وزیر خزانہ شوکت ترین کا نام بھی پنڈورا پیپرز میں شامل ہے۔ ان کے علاوہ صوبہ پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے اسپیکر اور صوبے کی سیاست میں اہم مقام رکھنے والے چوہدری پرویز الہی کے بیٹے چوہدری مونس الہی کا نام بھی سامنے آیا ہے۔ مونس الہی بھی عمران خان کی کابینہ کے رکن ہیں اور پانی کی محکمے کے نگران وزیر ہیں۔

Symbolbild | Pandora Papers
پینڈورا پیپرز میں قریب بارہ لاکھ فائلیں موجود ہیں, ان میں پاکستان کے بعض فوجی جرنیلوں، کاروباری حضرات، سیاستدانوں اور میڈیا مالکان کے نام شامل ہیںتصویر: ICIJ

پینڈورا پیپرز کے حوالے سے پاکستانی وزیر اعظم نے واضح کیا ہے کہ اس مناسبت سے بھرپور اور مکمل انکوائری مکمل کی جائے گی اور غلط کام کرنے والوں کے خلاف مناسب ایکشن لیا جائے گا۔

ہر ایک کی تفتیش ہو گی، فواد چوہدری

پاکستان کے وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ عمران خان نے وزیر اعظم معائنہ کمیشن کے زیر نگرانی ایک اعلیٰ سطحٰ سیل قائم کر دیا ہے اور پینڈورا پیپرز میں جن کے نام سامنے آئے ہیں، ان کے بارے میں جامع تفتیش کی جائے گی۔ چوہدری نے مزید بتایا کہ جو بھی ملوث ہوا، اس کے خلاف تفتیشی عمل کے بعد سخت تادیبی کارروائی کی جائے گی۔

یورپی یونین کا منی لانڈرنگ کے خلاف اعلان جنگ

فواد چوہدری کے مطابق تفتیشی عمل قومی احتساب کمیشن، فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور فیڈرل انوسٹیگیشن ایجنسی مکمل کرے گی اور تمام افراد کو دستور پاکستان کی شق باسٹھ کے تحت بھی پرکھا جائے گا۔ اسی شق کے تحت ہی سابق وزیر اعظم نواز شریف سپریم کورٹ سے نااہل قرار دیے گئے تھے۔

Pandora Papers | Symbolbild
پینڈورا پیپرز کا افشا رواں برس تین اکتوبر بروز اتوار کو کیا گیا تھاتصویر: Zeljko Lukunic/PIXSELL/picture alliance

حزب اختلاف کی جانب سے آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئی ہیں کہ پینڈورا پیپرز میں جن حکومتی وزراء اور ان سے ملحقہ اہلکاروں کے نام سامنے آئے ہیں، وہ فوری طور پر اپنے اپنے منصب سے مستعفی ہو جائیں۔

ممکنہ اثرات کے حوالے سے شکوک و شبہات

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تفتیشی عمل کے واضح اثرات کا موجودہ سیاسی عمل پر مرتب ہونا ممکن نہیں۔ امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک ووڈرو ولسن سینٹرز فار اسکالرز سے وابستہ جنوبی ایشیائی امور کے ماہر مائیکل کوگلمین کا کہنا ہے کہ انہیں اس تفتیشی عمل کے پاکستانی سیاست پر بڑے اثرات ظاہر ہوتے دکھائی نہیں دے رہے اور اس کی وجہ عمران خان بھی ہیں کیونکہ ان کا نام اس میں شامل نہیں اور انہوں نے فوری طور پر تفتیشی عمل شروع کرنے کا عندیہ بھی دے دیا ہے۔ کوگلمین کے مطابق بدعنوانی کے  انکشافات ان کی پارٹی کے لیے یقینی طور پر اہم ہیں۔

ایک اور سیاسی تجزیہ کار محمل سرفراز کا کہنا ہے کہ بظاہر کسی بڑی کارروائی کا امکان موجود نہیں اور کابینہ میں شامل جن افراد کے نام سامنے آئے ہیں انہیں اپنے اپنے منصب سے علیحدگی اختیار کرنی چاہیے تا وقتیکہ تفتیش انہیں معصوم قرار نہیں دیتی۔

Pandora Papers | Symbolbild
جن کے نام سامنے آئے ہیں انہوں نے آف شور کمپنیوں میں لاکھوں ڈالر جمع کرا رکھے ہیںتصویر: Zeljko Lukunic/PIXSELL/picture alliance

سعودی عرب سے شائع ہونے والے جریدی عرب نیوز کی پاکستان کے لیے ایڈیٹر مہرین زہرا ملک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پینڈورا لیکس سے خان کی حکومت کو کوئی خطرہ لاحق دکھائی نہیں دیتا اور نہ ہی حکومت کو کسی بحران کا سامنا ہو گا اور صرف اتنا ہو سکتا ہے کہ عمران کو مونس الہی سے چھٹکارا مل سکتا ہے۔

’اگر ملک میں انصاف ہوتا تو عاصم سلیم باجوہ گرفتار ہوتے‘ مریم نواز

مہرین ملک کا خیال ہے کہ پینڈورا پیپرز میں جن حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجی حکام کے نام شامل ہیں ان سے تفتیش کیے جانے کے امکانات کم ہی دکھائی دے رہے ہیں،'' فوجی حکام کے خلاف کوئی تفتیش نہیں ہو گی، تفتیش کا وہم ہو سکتا ہے، احتساب کا وہم ہو سکتا ہے لیکن ہو گا کچھ نہیں۔‘‘

اسی لیے کہا جا رہا ہے کہ حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجی افسران اور ان کے اہل خانہ سے تفتیش کرنا وزیر اعظم عمران خان کے لیے  کسی امتحان سے کم نہیں ہو گا۔ 

ہارون جنجوعہ (ع ح/ ع ا)