پیغمبر کا بچپن، مہنگی ترین ایرانی فلم
سات سال کے عرصے میں چالیس ملین ڈالر کی لاگت سے پیغمبر اسلام کے بچپن پر بننے والی ایرانی ہدایتکار مجید مجیدی کی فلم ’محمد‘ کی نمائش جاری ہے۔ اس فلم کو سراہا بھی جا رہا ہے اور ہدفِ تنقید بھی بنایا جا رہا ہے۔
صدیوں پہلے کا عربستان
فلم ’محمد‘ کا دورانیہ 190 منٹ ہے اور اس میں چَودہ سو سال پہلے کا دور دکھایا گیا ہے، جس میں بے آب و گیاہ پہاڑوں پر بکریاں چراتے چرواہوں کے ساتھ ساتھ اپنے روایتی ملبوسات کے ساتھ ریت کے زرد صحراؤں میں اونٹوں کی سواری کرتے عرب بھی نظر آتے ہیں۔ اس فلم کے لیے ایرانی حکومت نے بھی سرمایہ فراہم کیا۔
بچپن سے لڑکپن تک
اس فلم میں مستقبل کے پیغمبر کی پیدائش سے لے کر اُن کے لڑکپن تک کے دور کو دکھایا گیا ہے۔ اس فلم میں اسلامی تاریخ کا وہ واقعہ بھی انتہائی مہارت اور محو کر دینے والی معجزاتی کیفیت کے ساتھ عکس بند کیا گیا ہے، جب مکہ میں ہاتھیوں کے ساتھ حملہ کرنے والے یمنی قبائل پر پرندوں نے کنکریاں پھینک کر حملہ آوروں کے پورے لشکر کو نیست و نابود کر دیا تھا۔
پیغمبرِ اسلام پر یہ پہلی فلم نہیں
پیغمبر اسلام کی زندگی پر ’محمد‘ دوسری اہم پروڈکشن ہے۔ اس سے قبل شامی نژاد امریکی فلم ساز مصطفیٰ عکاد نے 1976ء میں ’محمد، دا میسنجر آف گاڈ‘ نامی فلم بنائی تھی، جو بالخصوص ایرانی شیعہ کمیونٹی میں ایک سپر ہٹ فلم ثابت ہوئی تھی۔ پیغمبر اسلام کی زندگی پر قریب چالیس برس بعد بنائی گئی اس دوسری اہم ترین فلم پر پہلی فلم کے مقابلے میں تقریباﹰ بیس گنا زیادہ خرچ آیا۔
انتہا پسندی کے خلاف پیغام
فلم کے ڈائریکٹر مجیدی کے مطابق اس فلم کو بنانے کا مقصد اسلام کی ان حقیقی تعلیمات کا فروغ ہے، جنہیں انتہا پسندوں نے مسخ کر دیا ہے:’’بدقسمتی سے آج کل اسلامی تعلیمات کو بنیاد پرستانہ نظریات، انتہا پسندی اور تشدد سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ دہشت گرد گروہ دہشت گردی کی بہیمانہ کارروائیاں اسلام کا نام استعمال کرتے ہوئے کر رہے ہیں، جو اصل میں اسلام سے کوئی مطابقت نہیں رکھتیں۔‘‘
فلم کی شوٹنگ ایرانی گاؤں میں
ایرانی دارالحکومت تہران سے ستر کلومیٹر جنوب کی جانب ایک گاؤں اللہ یار میں یہ منظر تیس جون 2013ء کا ہے۔ اس منظر میں فلم ’محمد‘ کا ایک منظر فلمایا جا رہا ہے۔ بہت سے مسلمان حلقوں میں پیغمبر کا چہرہ دکھانے کی ممانعت ہے، اس لیے اس فلم میں بھی کہیں بھی پیغمبر کا چہرہ نہیں دکھایا گیا۔ اس کی بجائے یہ فلم دیگر کرداروں کی زبانی پوری کہانی سناتی ہے۔
فلم ’محمد‘ ایرانی پراپیگنڈا؟
تہران میں اُتاری گئی اس تصویر میں موٹر سائیکل سوار فلم ’محمد‘ کے ایک بڑے پوسٹر کے پاس سے گزر رہے ہیں۔ جب کینیڈا کے شہر مونٹریال کے ایک سینما گھر میں اس فلم کی نمائش کی گئی تو سینما کے باہر کوئی پچاس مظاہرین نے اس فلم کے خلاف احتجاج بھی کیا۔ ان مظاہرین نے فلم کے ہدایتکار مجید مجیدی پر الزام عائد کیا کہ وہ اس فلم سے ایرانی پراپیگنڈا کو فروغ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ایران میں کامیاب نمائش
اس فلم کی تشہیر کے لیے ایران بھر میں بڑے بڑے پوسٹر آویزاں کیے گئے جبکہ ابتدائی تمام شو ہاؤس فُل رہے۔ بہت سے لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ فلم اُنہیں اپنے ساتھ بہا کر لے گئی۔ اپنے کنبے کے ساتھ اس فلم کو دیکھنے کے لیے سینما پہنچنے والے ایک ایرانی ابوفضل فتحی کے بقول انہیں یہ فلم بہت زیادہ پسند آئی:’’جو لوگ اسلام کو نہیں جانتے میرے خیال میں ان کی ابتدائی تعلیم کے لیے یہ انتہائی اہم ثابت ہو سکتی ہے۔‘‘
جذبات مجروح کرنے کی نیت نہیں تھی
اس فلم کی موسیقی دینے پر معروف بھارتی موسیقار اے آر رحمان آج کل تنقید کا نشانہ بن رہے ہیں۔ اس تنقید پر اپنے رد عمل میں اُنہوں نے اپنے فیس بک پیچ پر ایک خط شائع کیا ہے، جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ انہوں نے اس فلم کی موسیقی ترتیب دینے کا فیصلہ اچھی نیت کے ساتھ کیا تھا اور وہ کسی کے جذبات مجروح نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اس فلم کا حصہ بننے پر اس مسلمان بھارتی سپر اسٹار کے خلاف ایک فتویٰ جاری کر دیا گیا تھا۔
فلم پر تنقید بھی
شیعہ مسلمان سنی مسلمانوں کے مقابلے میں پیغمبر اسلام کی ذات، ان کی شبیہ اور اسلامی تاریخ کی دیگر اہم مذہبی شخصیات کی عکاسی کے حوالے سے قدرے اعتدال پسندانہ رویہ رکھتے ہیں۔ اس فلم پر تنقید کرتے ہوئے سعودی مفتیٴ اعظم عبدالعزیز الشیخ کا کہنا تھا کہ اس میں اسلام کی اصل تصویر کو مسخ کیا گیا ہے۔