پوپ فرانسس کا دورہٴ ترکی مکمل
1 دسمبر 2014اتوار 30 نومبر کو پوپ فرانسس نے ایک دعائیہ عبادت میں شرکت کی جس کی قیادت تین سو ملین آرتھوڈوکس مسیحیوں کے روحانی رہنما بارتھولومیُو نے کی۔ اِس عبادت میں مشرق وسطیٰ میں دہشت گردی اور خاص طور پر مسیحیوں کو جس انداز میں ٹارگٹ کیا جا رہا ہے، اُس کی بھرپور مذمت کرنے کے علاوہ سارے خطے کے لیے امن کی دعا مانگی گئی۔ دونوں مذہبی پیشواؤں نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ مشرقِ وسطیٰ میں مسیحیوں کی حالت زار پر توجہ دیں اور عملی کوشش کریں کہ اِس خطے سے مسیحیت کو دیس نکالا نہ ملے۔ دونوں لیڈروں نے یورپی ملک یوکرائن کے پرتشدد بحران کے جلد سے جلد حل کے لیے دعا کرنے کے علاوہ فریقین سے اپیل کی کہ وہ مذاکرات کا راستہ اپنا کر معاملات کو حل کریں۔
پوپ فرانسس اور ترک آرتھوڈاکس چرچ کے سربراہ کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بعد ایک مشترکہ بیان بھی جاری کیا گیا۔ اس بیان میں واضح طور پر کہا گیا کہ مسیحیوں کے بغیر مشرق وسطیٰ کا وجود مکمل نہیں ہوتا۔ پوپ فرانسس کا استنبول کا دورہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ بازنطینی مسیحی دور میں یہ شہر جہاں داراحکومت تھا وہاں اسقفِ اعظم کا مقام بھی یہی تھا۔ اُس دور میں یہ قُسطُنطُنیہ کہلاتا تھا۔ استنبول میں پوپ فرانسس سے مسلمان اور مسیحی اشرافیہ اور عام لوگوں نے ملاقاتیں بھی کی۔ اتوار کے روز پوپ فرانسس کے ترک دورہ اپنی منزل پر پہنچ گیا۔
ترکی میں اپنے قیام کے دوران پوپ فرانسس نے واضح طور پر کہا کہ تمام مذاہب میں انتہائی قدامت پسند گروپ موجود ہوتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ قران ایک امن کی کتاب ہے اور یہ یقیناً پیغمبرانہ امن کی کتاب ہے۔ پاپائے روم کے مطابق انہوں نے ترک صدر رجب طیب ایردوآن سے ملاقات کے دوران تجویز پیش کی کہ تمام مسلمان لیڈران مل کر دہشت گردی کی مذمت کا اعلان کریں اور اِس سے اکثریتی مسلمانوں کا بھلا ہو گا۔ ترک صدر سے پوپ نے اپنے دورے کے پہلے روز جمعے کو ملاقات کی تھی۔ اسقفِ اعظم نے ترکی کے اس دورے کے دوران کئی مرتبہ اسلامک اسٹیٹ کے دہشت گردانہ اقدامات کی مذمت کی۔ پوپ کو دورے کے دوران انتہائی سخت سکیورٹی فراہم کی گئی تھی۔
پوپ فرانسس اور ترک مسیحی روہنما بارتھولومیو کے درمیان مشرق اور مغرب کے منقسم چرچ کی خلیج کو پاٹنے کی عملی کوششیں گزشتہ کئی مہینوں سے جاری ہیں۔ کیتھولک اور ترک آرتھوڈوکس چرچ کے درمیان مصالحت کا عمل سن 1964 سے شروع ہے جب یروشلم میں پوپ پال ششم اور ترک چرچ کے رہنما ایتھنوگوراس کے درمیان معانقہ ہوا تھا۔ اِن دونوں مسیحی عقائد کے رہنماؤں کے درمیان پندرہویں صدی کے بعد یہ پہلی باقاعدہ ملاقات تھی۔ ہفتے کے روز دونوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والی ملاقات میں پوپ فرانسس نے ترک مسیحی رہنما کے احترام میں سر جھکایا اور پھر اُن سے کہا کہ وہ اُن کے ماتھے پر بوسہ دیں۔ ہفتے ہی کے روز پوپ نے استنبول کی تاریخی نیلی مسجد کا بھی دورہ کیا۔ مسجد میں انہوں نے مکہ کی جانب رخ کر کے مسجد کے امام کے ساتھ دو منٹ تک دعائیہ خاموشی اختیار کی۔