1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پنجاب میں کورونا وائرس کا پھیلاؤ: کہاں کم، کہاں زیادہ؟

14 اپریل 2020

آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں کورونا وائرس کے پھيلاؤ کے مختلف علاقوں میں مختلف رجحانات سامنے آ رہے ہیں۔ اس وقت ملک بھر میں نئے کورونا وائرس کے مجموعی متاثرين کی تقریباً نصف تعداد پنجاب میں ہے۔

https://p.dw.com/p/3as6D
Pakistan | Coronavirus | Lockdown Lahore
تصویر: DW/T. Shahzad

سب سے زیادہ کیسز کے ساتھ لاہور میں کورونا وائرس کی شدت بہت زیادہ ہے لیکن دوسری طرف ساہیوال، راجن پور، مظفر گڑھ اور بھکر جیسے علاقوں میں اس کی شدت نہ ہونے کے برابر ہے۔ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں محکمہ پرائمری اینڈ سکینڈری ہیلتھ کیئر کی طرف سے قائم کيے جانے والے کورونا مانیٹرنگ روم سے منگل کی شام جاری کی جانے والی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق اس وقت پنجاب بھر میں کورونا وائرس کے مصدقہ مریضوں کی تعداد 2,856 تک پہنچ چکی ہے۔ ان میں رائے ونڈ کی تبلیغی جماعت سے منسلک 992 افراد بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ پنجاب کی مختلف جیلوں میں قید 99 قیدیوں میں بھی کورونا وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے۔ صوبے کے تین قرنطینہ سينٹرز میں موجود 701 زائرین میں بھی کورونا وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے۔ ان میں ڈی جی خان کے قرنطینہ سينٹر کے 221، ملتان کے 457 اور فیصل آباد کے 23 زائرین شامل ہیں۔

علاوہ ازيں ابھی تک پنجاب کے 1,074 عام شہريوں میں بھی کورونا وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے۔ ان میں 469 کیسز کے ساتھ لاہور پہلے نمبر پر، 138 کیسز کے ساتھ گجرات دوسرے نمبر پر، 87 کیسز کے ساتھ راوالپنڈی تیسرے نمبر پر، 42 کیسز کے ساتھ رحیم یار خان چوتھے نمبر پر اور 38 کیسز کے ساتھ گوجرانوالا پانچویں نمبر پر ہے۔ وہاڑی ميں 35 اور جہلم ميں 33 کیسز سامنے آ چکے ہيں۔

Pakistan | Coronavirus | Lockdown Lahore
تصویر: DW/T. Shahzad

رپورٹ ميں امکان ظاہر کيا گيا ہے کہ ساہیوال، راجن پور، مظفر گڑھ اور بھکر ميں يا تو شہریوں میں کورونا وائرس کے کیسز رپورٹ نہیں ہو رہے یا پھر وہاں کيسز بالکل ہی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اسی طرح لیہ، اوکاڑہ، جھنگ، پاکپتن اور اٹک سے بھی ابھی تک کورونا وائرس کا صرف ایک ایک کیس ہی رپورٹ ہوا ہے۔ لیکن رائے ونڈ میں موجود تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والے کورونا وائرس کے مصدقہ مریضوں میں لیہ سے تعلق رکھنے والے ستائیس، مظفر گڑھ کے باون، راجن پور کے نو اور ساہی وال کے سات افراد شامل ہیں۔ اسی طرح بیرون ملک سے آنے والے زائرین میں بھی ایسے ہی مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد موجود ہیں۔

ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے ممتاز معالج اور پوسٹ گریجویٹ میڈیکل انسٹیٹیوٹ امیر الدین میڈیکل کالج کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر سردار محمد الفرید ظفر نے بتایا کہ نيا کورونا وائرس دراصل شہروں کی بیماری ہے۔ انہوں نے کہا، ''ہم نے نیو یارک، پیرس اور میڈرڈ سمیت دنیا کے بہت سے بڑے شہروں میں اس بیماری کی شدت زیادہ دیکھی ہے۔ اس ليے کہ ایسے تمام علاقے جہاں آبادی زیادہ ہے، وہاں لوگ تنگ گلیوں میں رہتے ہیں جبکہ ان کی آمد و رفت اور میل جول بھی عموماً زیادہ ہوتا ہے۔ اسی طرح گجرات کی طرح کے وہ شہر جہاں پر دوسرے ملکوں سے لوگوں کا آنا جانا رہتا ہے، وہاں سے بھی کیسز زیادہ آ رہے ہیں۔ یہ وائرس ممکنہ طور پر سفر کے ذريعے زیادہ پھیلتا ہے اور ایئر پورٹس اس کے پھیلاؤ کا باعث بنتے ہیں۔ اسی ليے ہم دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان کے چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں کورونا وائرس کے مریض یا تو نہیں ہیں یا پھر بہت ہی کم ہیں۔ ‘‘ ايک اور سوال کے جواب ميں ڈاکٹر سردار محمد الفرید ظفر کے مطابق یہ دیکھنے کے ليے کہ کورونا وائرس کے زیادہ کیسز جی ٹی روڈ کے آس پاس کے علاقوں سے کیوں آ رہے ہیں، باقاعدہ تحقیقات کرانا پڑيں گی۔

پاکستان میں بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے ليے بین الاضلعی آمد و رفت کو محدود کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ اس حوالے سے جب پروفیسر فرید ظفر سے پوچھا گیا، تو ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک قانونی معاملہ ہے اور اسی ليے اس پر ان کا بات کرنا مناسب نہیں ہوگا۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ کورونا کی بیماری کا خاتمہ لوگوں کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔ ''اگر لوگ رضاکارانہ طور پر اپنی آمد و رفت کو محدود کر لیں، تو کورونا کے حوالے سے پاکستان میں بڑی پيش رفت سامنے آ سکتی ہے۔‘‘ ڈاکٹر فرید ظفر سمجھتے ہیں کہ گرمی کی شدت ميں اضافے سے بھی کورونا وائرس کی نقصان پہنچانے کی صلاحیت میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔