1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پشاور: نوجوان محققین کے لیے جدید نجی لائبریری

دانش بابر، پشاور18 نومبر 2014

پاکستان میں حکومتی توجہ نہ ہونے کی بناء پر لائبریریوں کا فقدان ہے لیکن صوبے خیبر پختون خواہ کے ایک رہائشی نے اس کمی کو محسوس کرتے ہوئے اپنی مدد آپ کے تحت پشاور میں تعلیم و تحقیق کی غرض سے ایک لائبریری قائم کی ہے۔

https://p.dw.com/p/1DpAC
فصیح الدین کی اس لائبریری میں تقریباً چودہ ہزار ملکی اور بین الاقوامی کتب اور رسالے موجود ہیں
فصیح الدین کی اس لائبریری میں تقریباً چودہ ہزار ملکی اور بین الاقوامی کتب اور رسالے موجود ہیںتصویر: DW/D. Baber

تعلیم کی روشنی پھیلانے کے لیے اس ریسرچ لائبریری کے قیام کا سہرا پشاور کے ایک باہمت شہری فصیح الدین کے سر ہے، جنہوں نے اپنے ذاتی خرچ پر ایک ایسا کتب خانہ بنایا ہے، جس میں ہزاروں قیمتی، نایاب اور جدید کتابیں ہر وقت قارئین کے استفادے کے لیے موجود ہوتی ہیں۔

ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے فصیح الدین کا کہنا تھا کہ پشاور کی اپنی نوعیت کی اس پہلی اور واحد تحقیقی لائبریری میں مختلف موضوعات پر تقریباً چودہ ہزار ملکی اور بین الاقوامی کتب اور رسالے موجود ہیں، جن تک ملک بھر کے نوجوان طلباء و طالبات اور ایم فل، پی ایچ ڈی کے سکالرز آسانی کے ساتھ رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔

پانچ کمروں اور دو بڑے ہالوں پر مشتمل اس تحقیقی لائبریری میں روزانہ درجنوں افراد ریسرچ اور مصدقہ مواد کے تلاش میں آتے ہیں
پانچ کمروں اور دو بڑے ہالوں پر مشتمل اس تحقیقی لائبریری میں روزانہ درجنوں افراد ریسرچ اور مصدقہ مواد کے تلاش میں آتے ہیںتصویر: DW/D. Baber

اس کتب خانے میں رکھی گئی کتابوں کی تفصیل بتاتے ہوئے اُنہوں نے کہا:’’یہ لائبریری اس وجہ سے ممتاز ہے کیونکہ یہ پشاور کی واحد نجی لائبریری ہے۔ اس میں کریمنالوجی، سوشیالوجی، فلسفہ، پولیٹکل سائنس، اکنامکس، تاریخ، حالات حاضرہ، اسلامک سٹیڈیز، اقبالیات، انگلش لٹریچر ، اردو، پشتو اور فارسی ادب کی کتابیں اور رسالے اتنی تعداد میں موجود ہیں کہ یہ اور کہیں نہیں ہوں گے۔‘‘

وہ کہتے ہیں کہ نئی نسل میں کتب بینی کا رجحان بہت ہی کم ہوتا جا رہا ہے کیونکہ زیادہ تر لوگ انٹرنیٹ پر انحصار کرنے لگے ہیں جو کہ ایک تشویش کی بات ہے اور اس سے تحقیق کا معیار بھی گر رہا ہے۔ فصیح الدین پشاور میں قائم کردہ اس ریسرچ لائبریری کے مقصد کے بارے میں کہتے ہیں:’’پشاور علمی طور پر مردنی اور ویرانی کا سماں پیش کر رہا تھا، ایسے میں ہم نے علمی اور ادبی زندگی کو پھر سے تازہ کیا ہے، اور جس شہر میں لائبریری نہ ہو، تو ہمارے ایک پروفیسر ایسے شہر کو مردہ شہر کہتے تھے۔‘‘

پانچ کمروں اور دو بڑے ہالوں پر مشتمل اس تحقیقی لائبریری میں روزانہ درجنوں افراد ریسرچ اور مصدقہ مواد کے تلاش میں آتے ہیں، جن کے لیے یہاں کے دروازے ہر وقت کھلے ہوتے ہیں۔

فصیح الدین اپنے کتب خانے میں ڈی ڈبلیو کے نمائندے دانش بابر کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے
فصیح الدین اپنے کتب خانے میں ڈی ڈبلیو کے نمائندے دانش بابر کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئےتصویر: DW/D. Baber

مطالعہ ہال میں بیٹھے ہوئے یونیورسٹی کے ایک طالب علم محمد کبیر کا کہنا تھا کہ تعلیم و تحقیق میں لائبریریوں کو ہمیشہ مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے اور اس لائبریری سے وہ اور ان کے دوسرے ساتھی بہت زیادہ فائدہ حاصل کر رہے ہیں:’’پہلے ہم ادھر اُدھر پھرتے رہتے تھے۔ ایسی ایسی نایاب کتابیں ہیں، جوکہیں بھی نہیں ملتیں، یہاں تک کہ دوکانوں پر بھی نہیں ملتیں، لیکن یہاں پر یہ ہمیں آسانی کے ساتھ مل جاتی ہیں۔‘‘

کبیر کا کہنا ہے کہ اس قسم کے کتب خانوں کا قیام اصل میں حکومت کا کام ہے، جبکہ سرکاری سطح پر اس ضمن میں لاپرواہی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس شہر میں کوئی بھی باقاعدہ تحقیقی لائبریری موجود نہیں ہے۔

فصیح الدین کہتے ہیں کہ ان کی لائبریری ایک انفرادی کاوش کا نتیجہ ہے، جس میں کسی بھی ادارے کی طرف سے مالی مدد نہیں کی گئی۔ ان کی یہ کوشش ہے کہ اس لائبریری کو پشاور یونیورسٹی کے احاطے کے قریب منتقل کر دیں تاکہ اس سے زیادہ سے زیادہ نوجوان طالب علم استفادہ کر سکیں۔

ایک اور طالب علم عامر اقبال کے مطابق اس لائبریری کی وجہ سے ان کو مقابلے کے امتحانات کی تیاری میں کافی مدد مل رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو بھی اس قسم کی لائبریریاں قائم کرنی چاہییں کیونکہ کتب بینی ہی سے صحت مند معاشرے تشکیل پاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ فصیح الدین کی محنت سے قائم کردہ یہ تحقیقی کتب خانہ حکومتی اداروں کے لیے ایک زندہ مثال ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں