1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پریشان دلہنوں کو لنگوروں کی تلاش

امجد علی4 فروری 2015

بھارت کے مختلف شہروں میں بندروں کی بہتات ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ بندر لوگوں کے لیے زیادہ سے زیادہ پریشانی کا باعث بنتے جا رہے ہیں۔ اب شادی کی تقریبات کو بندروں سے بچانے کے لیے لنگوروں کی مدد لی جانے لگی ہے۔

https://p.dw.com/p/1EVRg
تصویر: picture-alliance/dpa

ہندو مَت میں بندروں کو خاص طور پر احترام کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے لیکن اس کا کیا کیجیے کہ بندروں کی آبادی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے اور یہ بندر پارکوں اور باغوں کو تاراج کرتے نظر آتے ہیں۔ دفاتر اور رہائشی عمارات پر بھی بندروں کا قبضہ نظر آتا ہے اور یہ خوراک حاصل کرنے کے لیے لوگوں پر حملہ کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

نیوز ایجنسی اے ایف پی کے ایک جائزے کے مطابق بندر اب بھارتی دلہنوں کے لیے بھی پریشانی کا باعث بننے لگے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بندر بڑی تعداد میں جمع ہو کر شادی کی اُن تقریبات پر ہلّہ بول دیتے ہیں، جو کھلے آسمان تلے منعقد ہوتی ہیں۔

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کی میونسپل کارپوریشن بھی حکومتی دفاتر والے علاقے کو بندروں سے بچانے کے لیے لنگور کرایے پر لیتی ہے
بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کی میونسپل کارپوریشن بھی حکومتی دفاتر والے علاقے کو بندروں سے بچانے کے لیے لنگور کرایے پر لیتی ہےتصویر: AP

ایسے میں نئی نویلی دلہنیں جس قدر اہتمام کے ساتھ اپنی شادی کی انگوٹھی یا اپنے ملبوسات اور زیورات کا انتظام کرتی ہیں، اتنے ہی اہتمام سے اب وہ شادی کی تقریب پر حملہ کرنے والے بندروں کا بھی پہلے سے بندوبست کرنے لگی ہیں تاکہ شادی کی تقریب میں کوئی کسر نہ رہ جائے اور صرف بندروں کی وجہ سے شادی کا مزہ غارت نہ ہو جائے۔ اس مقصد کے لیے بڑے قد کے سلیٹی رنگ کے لنگور اور اُن کے رکھوالے کرایے پر لیے جاتے ہیں۔ یہ لنگور اور قدرے چھوٹے قد کے عام بندر قدرتی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ مخاصمت رکھتے ہیں لیکن جب آمنے سامنے آئیں تو بندر عموماً پسپا ہو جاتے ہیں۔

اے ایف پی نے تاج محل کی وجہ سے شہرت رکھنے والے شہر آگرہ سے مقامی میونسپل کارپورشن کے ایک عہدیدار رام اوتار کے حوالے سے بتایا ہے کہ وہاں عام طور پر سردیوں کے موسم میں ایسے لنگوروں کی مانگ بہت بڑھ جاتی ہے۔ رام اوتار نے مزید بتایا:’’لنگور رکھنے والے ایڈوانس بکنگ کی صورت میں ایک شادی کی تقریب کو بندروں سے محفوظ بنانے کے لیے تین ہزار روپے لیتے ہیں لیکن اگر ایمرجنسی ہو اور بندر پہلے سے ہی تقریب پر دھاوا بول چکے ہوں تو پھر اُن کا ریٹ دَس ہزار روپے تک بھی چلا جاتا ہے۔‘‘

بھارت میں حالیہ برسوں کے دوران بندروں کی تعداد میں بڑے پیمانےپر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے
بھارت میں حالیہ برسوں کے دوران بندروں کی تعداد میں بڑے پیمانےپر اضافہ دیکھنے میں آیا ہےتصویر: AP

تاج محل کو دیکھنے کے لیے سیاحوں کی ایک بڑی تعداد آگرہ جاتی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ آگرہ میں گزشتہ کچھ عرصے کے دوران بندروں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اُنہیں خوراک کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ کٹر ہندو بندروں کو کھانا کھلانا باعثِ ثواب سمجھتے ہیں۔

اے ایف پی نے جریدے ٹائمز آف انڈیا کے حوالے سے لکھا ہے کہ چونکہ اس شہر میں شادی کی زیادہ سے زیادہ تقریبات اب کھلے آسمان تلے منعقد ہونے لگی ہیں، اس لیے بندروں کے حملے بھی بڑھ گئے ہیں اور دلہنیں صحیح معنوں میں بندروں سے ڈرنے لگی ہیں۔ اس جریدے نے ایک اُنتیس سالہ دلہن امیتا سنگھ کا حوالہ دیا ہے، جس کا کہنا ہے کہ شادی کے روز بندروں کے ایک بن بلائے ہجوم کا حملہ اُس کے لیے ایک صدمے سے کم نہیں تھا: ’’مَیں اتنا ڈر گئی کہ مَیں کرسی سے گر پڑی اور میرا میک اَپ اور شادی کا جوڑا مکمل طور پر غارت ہو گیا۔‘‘ تب ولیمے کی تقریب کو بندروں سے بچانے کے لیے ایک لنگور والے کا بندوبست کیا گیا۔

آگرہ ہی کے ایک رہائشی دپیش گپتا نے شادی کی ایک ایسی تقریب میں شرکت کی تھی، جس میں بندروں نے دولہے پر حملہ کر دیا تھا۔ دپیش گپتا کے مطابق اس واقعے کے بعد جب اُنہوں نے اپنی بیٹی کی شادی کی تو تین لنگور کرایے پر لیے اور اُنہیں تقریب کے اردگرد مختلف مقامات پر تعینات کیا۔