پرندے کی شکل کا ڈائینو سارس، 16کروڑ سال پرانا فوسل دریافت
4 اکتوبر 2009خیال کیا جا رہا ہے کہ اس دریافت سے محقیقن کو اس ارتقائی عمل کی گمشدہ کڑی مل گئی ہے جس سے وہ یہ جان سکیں گے کہ آخر جسم پر پرندوں کی طرح پر رکھنے والا یہ ڈائینوسار، ارتقاء کے بعد پرندے کی مکمل شکل میں کیسے تبدیل ہوا۔
تحقیقی جریدے سائنس میں چھپنے والی تحقیق کے مطابق شمالی چین کے صوبے لیاؤننگ Liaoning صوبے میں بہت اچھی حالت میں ملنے والا یہ فوسل دراصل انکیورنِس ہکسلائی Anchiornis Huxleyi نامی چھوٹے ڈائینو سار کا ہے جو قریب 16کروڑ سال پہلے زمیں موجود تھا۔اس فوسل کو دریافت کرنے والی ٹیم کے سربراہ زینگ زیو کا کہنا ہے کہ مرغی کے سائز کے برابر اس ڈائینوسار کے فوسل کی کل لمبای پچاس سینٹی میٹر سے کم ہے، جبکہ اس کی کھوپڑی کی لمبای تقریبا چھ سینٹی میٹر ہے۔ زینگ زیو کہتے ہیں کہ یہ دریافت تھیروپوڈ یعنی پچھلے دو پیروں پر چلنے والے ڈاینوسور اور پرندوں کے درمیان رشتے کی ایک کڑی ہے۔
محققین کے مطابق اس فوسل کو دیکھنے سے اندازہ ہوا ہے کہ اس ڈائینوسار کے بازووں او دم پرلمبے لمبے پرموجود تھے تاہم اس کے پاؤں دیکھ کر خیال کیا جا رہا ہے کہ اس کے جسم پر آنے والےچار پر اس زمانے میں آئے جب یہ پرندوں کی شکل میں تبدیل ہونے کے عمل سے گزر رہے تھے۔
ڈائینوسار کے پرندوں میں تبدیل ہو جانے کے عمل کا مفروضة اب تک اچھی حالت میں کسی فوسل کے دریافت نہ ہونے کے باعث ٹھیک طریقے سے سمجھا نہیں جا سکا تھا۔ دوسری طرف بہت سے سائنسدانوں کا خیال ہے پرندوں جیسے ڈائینو سارس کے فوسلز دراصل کافی بعد کے ہیں اس لئے یہ بات یقین سے نہیں کی جاسکتی کہ یہ واقعی موجودہ پرندوں کے آباؤ اجداد ہیں۔
چینی محققین کا خیال ہے کہ یہ فوسل نہ صرف اب تک منظر عام پر آنے والے پرندے نما ڈائینوسارس کے فوسلز میں سب سے پرانا اور اچھی حالت میں ہے بلکہ یہ سب سے قدیم خیال کیے جانے والے پرندے سے بھی پہلے کا ہے۔
رپورٹ : افسر اعوان
ادارت : عاطف توقیر