1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاک جرمن تعلقات کے 70 برس، جرمنی سے کیا سیکھا جا سکتا ہے؟

10 نومبر 2021

پاکستان اور جرمنی کے سفارتی تعلقات کے ستر سال پورے ہونے پر ملک کے مختلف شہروں میں رنگا رنگ تقریبات جاری ہیں۔ ان تقریبات میں سفارت کاروں، صحافیوں اور سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ عام شہریوں کی بھی بڑی تعداد شریک ہو رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/42oDa
70 Jahre diplomatische Beziehungen zwischen Pakistan und Deutschland
تصویر: Tanvir Shahzad/DW

لاہور کے الحمرا آرٹس سینٹر میں ہونے والی ایسی دو روزہ تقریبات میں خوشی اور جشن کے بہت سے رنگ نمایاں تھے۔ اس موقع پر جرمنی کے تجارتی، سماجی اور ترقیاتی اداروں کی طرف سے تعارفی اسٹالز بھی لگائے گئے۔ ان اسٹالز پر موجود لوگ، جہاں پاک جرمن تعاون کے منصوبوں کے حوالے سے لوگوں کو آگاہی فراہم کر رہے تھے، وہاں جرمن کمپنیوں کی ترقی اور کامیابی کا جادو بھی سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ مرسڈیز بینز، آؤڈی، بی ایم ڈبلیو، پورشے، سیمنز، میٹرو کیش اینڈ کیری اور بائر جیسی کمپنیوں سمیت کامیابی کی بہت سی کہانیاں موجود تھیں۔

اس موقع پر ایک خصوصی تقریب بھی ہوئی۔ اس تقریب سے پاکستان میں جرمنی کے سفیر بیرنہارڈ شلاگ ہیک نے بھی خطاب کیا۔ انہوں نے پاکستان اور جرمنی کے مابین باہمی تعاون کے امور پر روشنی ڈالی۔ پنجاب کے ایک صوبائی وزیر ہاشم جواں بخت نے بھی اس موقع پر پاکستان اور جرمنی کے باہمی تعلقات کے فروغ کی اہمیت پر زور دیا۔

ایک پاکستانی کے طور پر میرا خیال یہ ہے کہ پاکستان اور جرمنی کے ستر برسوں پر محیط تعلقات کا قدرے مستحکم ہونا اور دوستانہ رہنا ایک خوش آئند بات ہے۔ اس پر خوشی منانا بھی بجا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ہم گزشتہ سات دہائیوں کے حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے اس بات پر بھی غور کریں کہ وہ کون سے عوامل تھے، جن کی وجہ سے جرمنی ترقی کی منازل طے کر کے دنیا کی اہم اور یورپ کی سب سے بڑی اقتصادی طاقت بن گیا اور وہ کون سی رکاوٹیں تھیں، جو پاکستان کی ترقی کے عمل میں رخنہ اندازی کرتی رہیں۔ جرمنی دوسری عالمی جنگ کی تباہی کے بعد اپنے پاؤں پر ایسا کھڑا ہوا کہ آج دنیا کے غریب ممالک کو مالی امداد فراہم کرنے والا ملک ہے لیکن پاکستان آج بھی عالمی مالیاتی اداروں کی شرائط کے سامنے بے بسی کی تصویر بنا ہوا ہے۔

 Tanveer Shehzad Blogger Urdu
تنویر شہزاد، بلاگر تصویر: privat

پاکستان اور جرمنی کے سفارتی تعلقات کے ستر سال پورا ہونے پر دونوں ملکوں کے حالات کا موازنہ کر کے مستقبل کے لئے کئی سبق حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ جنگیں جرمنی نے بھی لڑی ہیں اور پاکستان نے بھی لیکن جرمنی نے دوسری عالمی جنگ کے بعد تاریخ کے ملبے کو ایک طرف رکھ کر اپنے آپ کو جس طرح عالمی تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کیا اور ترقی کا جو سفر طے کیا ہے، اس کو دھیان میں رکھنے کی ضرورت ہے۔

جرمن معاشرے میں انسانی حقوق کے احترام، جمہوری روایات کی پاسداری، ثقافتی تنوع اور معاشی لبرل ازم کو بھی دیکھا جانا چاہیے۔ بعض ماہرین کے مطابق پاکستان میں توانائی کے بحران سے نمٹنے میں بھی جرمنی کا ماڈل مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ جرمن معاشرے میں سائنس، علم، ٹیکنالوجی  اور ٹیکنیکل ٹریننگ کو جو مقام حاصل ہے، اس کو بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ پاکستان جرمن ٹیکنالوجی کے تبادلے سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ اس کے لیے مطلوبہ تیاری کی طرف پیش رفت ہونی چاہیے۔

جرمنی پاکستان کا ایک اہم تجارتی پارٹنر ہے اور دونوں ملکوں کا تجارتی حجم تین ارب یورو سے بھی زیادہ ہے۔ جرمنی نے صنعتی نمائشوں کو کاروباری ترقی کے لیے جیسے استعمال کیا ہے، وہ بھی ایک بہتر ماڈل ہے۔ اسی طرح جرمنی کے انجینئرنگ سیکٹر اور اس سے جڑی  صنعتی ترقی پر نظر رکھنے سے باہمی تعاون کی نئی راہیں کھل سکتی ہیں۔

جرمنی کی وفاقی ایجنسی برائے روزگار کے بورڈ کے چیئرمین ڈیٹلیف شیلے نے حال ہی میں برلن حکومت سے ایک فوری اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ تارکین وطن کی ایک واضح بڑی تعداد کو ملک میں لانے کا فوری بندوبست کرنا ہو گا۔ جرمنی کو  سالانہ تقریبا چار لاکھ ہنرمند افراد کی ضرورت ہے۔ جرمنی نے کورونا وبا کے بعد اب اپنی ویزہ پالیسی میں کچھ نرمی بھی کی ہے۔ پاکستانی نوجوانوں کو ان مواقع سے روشناس کرانا بھی مفید ثابت ہو سکتا ہے۔

جرمنی کے تعلیمی نظام کا شمار دنیا کے چند بہترین تعلیمی نظاموں میں کیا جاتا ہے۔ تعلیمی شعبے میں پاک جرمن تعاون کا فروغ پاکستان کے تعلیمی شعبے میں بہتری لانے میں مدد دے سکتا ہے۔ پاکستان کے بارہ سو سے زائد طلبا ابھی بھی جرمنی میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے سکالر شپ حاصل کر چکے ہیں۔ جرمنی کے تعلیمی نظام میں موجود مواقع سے نوجوانوں کو آگاہی فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔

جرمنی نے، جس طرح اپنے معاشرے میں ہم آہنگی پیدا کی ہے، اس کا مطالعہ بھی ہونا چاہیے۔ پاکستان میں انفرادی طور پر بہت اچھی مثالیں موجود ہیں لیکن اداروں کی مضبوطی آج بھی توجہ کی متقاضی ہے۔ جرمنی میں ادارے مضبوط بنیادوں پر کھڑے ہیں۔ سیاسی جماعتیں جس طرح کام کرتی ہیں، انتخابات کا انعقاد جیسے کیا جاتا ہے، مقامی حکومتوں کا نظام جیسے کام کرتا ہے، ان سارے امور پر نگاہ ڈالی جانی چاہیے۔

پاکستانی معاشرے میں جرمنی کی طرح دلیل، منطق اور آگاہی کو اہمیت دی جانی چاہیے۔ ریاست اپنے شہریوں کا کس طرح خیال کرتی ہے؟ اس سوال کا جواب بھی جرمنی کے نظام میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔ تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں عالمی تقاضوں کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالتے ہوئے ترقی کی منازل کیسے طے کرنی ہیں؟ اس کے لیے جدید دنیا میں جرمن ماڈل سے مدد لی جا سکتی ہے۔