1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاک بھارت کشیدگی : ایٹمی جنگ سے متعلق اشتہار

23 جنوری 2013

آج کل جنوبی ایشیا میں بسنے والے لوگوں کو ایک ایسے سرکاری اشتہار نے تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے جس میں لوگوں کو ایٹمی جنگ شروع ہونے کی صورت میں بچاو کے لیے مشورے دیئے گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/17QII
تصویر: Reuters

بھارت کے زیرانتطام علاقے کشمیر کے ایک اخبار میں سول ڈیفنس اور آفات سے نمٹنے کے لیے قائم کیئے گئے ریاستی ادارے کی طرف سے سرکاری طور پر شائع ہونے والے اس اشتہار میں لوگوں کو ایٹمی جنگ کی صورت میں نقصانات سے بچاو کے لیئے اپنے گھروں میں خندقیں کھودنے، دو ہفتوں کی خوراک اور پانی ذخیرہ کرنے کے علاوہ موم بتیوں اور بیٹریوں کا انتظام رکھنے کے مشورے بھی دیے گئے ہیں۔

اگرچہ سری نگر کے سرکاری حکام نے اس اشتہار کی اشاعت کومعمول کی کارروائی بتاتے ہوئے اس کا مقصد عوامی آگاہی بتایا ہے،لیکن پاکستان میں انسانی حقوق کے کمیشن کی ایک رہنما حنا جیلانی کا کہنا ہے کہ اپنی نوعیت کا یہ منفرد اشتہار ایک ایسے موقعے پر شائع کیا گیا ہے جب لائن آف کنٹرول پر پاک بھارت کشیدگی کی اطلاعات سنی جا رہی ہیں، ان کے بقول اگرچہ پاک بھارت ایٹمی جنگ کا کوئی امکان موجود نہیں ہے تاہم اس اشتہار کی ٹائمنگ لوگوں کے لیے"تشویش کا باعث بنی ہے۔حنا جیلانی کے بقول انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے ہمیشہ سے ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمے کے لیے آواز اٹھاتے رہے ہیں کیونکہ اس سے انسانیت کو خطرات کا سامنا رہتا ہے۔

Flash-Galerie Atomkraft Atombombentest Bikini Inseln
سری نگر کے سرکاری حکام نے اس اشتہار کی اشاعت کا مقصد عوامی آگاہی بتایاہےتصویر: AP

ماہر سیاسیات ڈاکٹررسول بخش رئیس کہتے ہیں کہ یہ اشتہار زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا، اس لیے اسے سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے۔ان کے بقول سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا پاکستان کشمیریوں کے خلاف ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کا تصور کر سکتا ہے یا پھرکبھی بھارت کشمیر میں جاری مزاحمت کی تحریک کو ایٹمی اسلحے سے کچلنے بارے سوچ بھی سکتا ہے، ان کے مطابق ہو سکتا ہے کہ اس اشتہار کے ذریعے پروپیگنڈے کا اصول استعمال کرتے ہوئے کسی نے کشمیریوں کو یہ پیغام پہنچانے کی کوشش کی ہو کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی میں کشمیری محفوظ نہیں ہیں۔

ڈاکٹر رسول بخش رئیس کے مطابق بھارت چین کے خوف اور پاکستان بھارت کے ڈر سے ایٹمی اسلحہ بنانے پر مجبور ہوا، ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اگر دنیا کے باقی ملک بھی ایٹمی ہتھیاروں کی زیرو پالیسی کی طرف آئیں تو پھر ہی جنوبی ایشیا کو ایٹمی اسلحے سے پاک کرنے کی طرف سوچنا ممکن ہو سکے گا۔

تجزیہ نگار ایاز امیر کہتے ہیں کہ اس اقدام کو نارمل انداز میں لینا چاہیے کیونکہ یہاں کوئی پاک بھارت جنگ نہیں ہونے جارہی ہے۔ان کے بقول سرد جنگ کے دوران بنائی جانے والے زیرزمین پناہ گاہیں آج بھی ویسے ہی پڑی ہوئی ہیں، اسی طرح سری نگر کے بنکر بھی غیر استعمال شدہ ہی رہنے کا امکان ہے۔

پاکستان کے سابق وزیر خارجہ سرتاج عزیز نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ایٹمی صلاحیت کی اس حد تو افادیت ہے کہ وہ مخالف فریق کو خوف ذدہ رکھتی ہے۔ لیکن اس کے بطور ہھتیار استعمال ہونے کا امکان کوئی نہیں ہے، ان کے بقول انیس سو چوہتر میں بھارت کی طرف سے ایٹمی صلاحیت حاصل کر لینے کے بعد پاکستان مسلسل اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جنوبی ایشیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک خطہ قرار دلوانے کے لیے آواز اٹھاتا رہا لیکن وہاں سے ناکامی کے بعد آدھا ملک گنوا دینے والے اس ملک کو بھی اپنی سلامتی کے لیے دوسرا آپشن اختیارکرنا پڑا۔

نیوکلیائی امور کے ممتاز ماہر اور فزکس کے پروفیسر ڈاکٹر اے ایچ نیئرنے بتایا کہ جنگی خطرات سے بچنے کے لیے عوامی آگاہی اچھی بات ہے لیکن ایٹمی جنگ کی صورت میں نہ تو وہ اقدامات عوام کو بچا سکیں گے جو اشتہار میں بتائے گئے ہیں اور نہ ہی دونوں ملکوں کی سول ڈیفنس ایٹمی جنگ کے نقصانات کو روکنے کی صلاحیت رکھتی ہے،ان کے بقول چند سیکنڈز میں ہسپتالوں، سڑکوں، عمارتوں اور پانی و بجلی کے نظام کی تباہی کے بعد کون کیسے عوام کو محفوظ جگہ منتقل کر سکے گا، ان کے بقول ایٹمی جنگ سے بچاؤ کا واحد راستہ ایٹمی ہتھیاروں کا خاتمہ ہے، ان کے بقول ایسی حکومتیں جو ایک طرف ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد میں اضافہ کرتی جا رہی ہیں اور دوسری طرف عوام کو ایٹمی جنگ کے خطرات سے محفوط رکھنے کے لیے آگاہی فراہم کر رہی ہیں، وہ اچھا کام نہیں کر رہی ہیں۔ ان کے بقول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کا ادویات، زراعت اور انسانی فلاح کے دیگر کاموں میں محتاط استعمال تو درست ہے لیکن ایٹمی ہتھیاروں کو جنگی یا سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ ان کے بقول اگر پاکستان اور بھارت کی حکومتیں اپنے اپنے ایٹمی ہتھیار ختم کرکے انسانیت کو ان مہلک خطرات سے بچا لیں تو یہ ان کا اپنے عوام پر بہت بڑا احسان ہوگا۔

رپورٹ : تنویر شہزاد لاہور

ادارت : زبیر بشیر