1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاک بھارت تجارت، اصل مسئلہ کیا ہے؟

15 فروری 2012

پاکستان میں ایک مرتبہ پھر پاک بھارت تجارت کا موضوع ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ بعض تجزیہ نگاروں کے بقول بعض حالیہ پیشرفتوں نے اس حوالے سے پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت میں اختلافات کو اجاگر کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/143dW
پاکستان کے وزیر تجارت امین فہیمتصویر: AP

پیر کے روز لاہور کے ایکسپو سنٹرمیں جب پاکستان کے وزیر تجارت مخدوم امین فہیم پاک بھارت تجارت کے حوالے سے پازیٹو لسٹ کے خاتمے کا اعلان کر رہے تھے تو ان کے لہجے میں کوئی ابہام نہیں تھا۔

مخدوم امین فہیم کہہ رہے تھے، ’’ہم نے بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات معمول پر لانے کے لیے پاکستان کی پازیٹو لسٹ (وہ چند اشیا جن کی تجارت ہو سکتی ہے) کو ختم کرکے نیگیٹو لسٹ (یعنی وہ چند اشیاء جن کی فی ا لحال تجارت نہیں ہو سکے گی) پر جانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔‘‘

پاکستان کے وزیر تجارت کے اس بیان کی پرزور تالیوں سے تحسین کی گئی اور ان کی اس تقریر کے اختتام پر بھارتی وزیر تجارت نے اپنی نشست سے اٹھ کر ان کا خیر مقدم کیا۔ اس واقعے کو ابھی چوبیس گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے کہ پاکستان کی کابینہ نے پراسرار طور پر اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں نہ لیے جا سکنے کا جواز پیش کرکے اس بظاہر حتمی فیصلے کو مؤخر کر دیا۔

Pakistan Syed Munawar Hassan
جماعت اسلامی کے امیر منور حسن کا کہنا ہے کہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے ملک بھارت کے ساتھ تجارت کیونکر ممکن ہے؟تصویر: Abdul Sabooh

ممتاز تجزیہ نگار نذیر ناجی کہتے ہیں، ’’پاک بھارت تجارت کے معمول پر نہ آ سکنے میں پاکستان کے ایک بالا دست ریاستی ادارے کی ضد حائل ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ پاک بھارت تجارت کو فروغ نہ دے کر بھارت کی توانائی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے پورا کرنے میں رکاوٹ کھڑی کی جا سکتی ہے۔ اس سے بھارت کو دباؤ میں لا کر مسئلہ کشمیر کے حل کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے۔‘‘

نذیر ناجی کا کہنا ہے کہ پاک بھارت تجارت کی حامی پاکستان کی جمہوری حکومت کمزور ہے اور اہم فیصلہ سازی میں اس کا کردار محدود ہے۔ ان کے بقول دفاعی، خارجی اور اب تجارتی معاملات میں بھی فوج کی بات زیادہ چلتی ہے، اس لیے جب وہاں سے حکم آتا ہے حکومت پیچھے ہٹ جاتی ہے۔

اقتصادی تجزیہ نگار منصور احمد کی رائے یہ ہے کہ پاک بھارت تجارت کے منصفانہ فروغ سے دونوں ملکوں کے عوام کا فائدہ ہو گا، انھیں سستی اشیاء کم وقت میں مل سکیں گی اور کاروباری سرگرمیوں کو ترقی ملے گی۔ ان کے بقول پچھلے تین سالوں سے پاک بھارت تجارت کا اوسط سالانہ حجم ایک اعشاریہ آٹھ ارب امریکی ڈالر رہا ہے۔ اس میں دو سو ملین ڈالر کے لگ بھگ پاکستانی برآمدات ہیں جبکہ باقی حصہ بھارت کا ہے۔

منصور احمد کا کہنا ہے، ’’اس وقت دونوں ملکوں کے مابین سنگا پور، دبئی، ہانگ کانگ اور دوسرے راستوں سے دو ارب ڈالرز سے زائد مالیت کی اشیا کی بلواسطہ تجارت بھی ہو رہی ہے۔ پاک بھارت تجارت کا پوٹینشل دس ارب امریکی ڈالرز کے قریب ہے۔‘‘

Pakistan Ashfaq Parvez Kayani
پاکستان کی جمہوری حکومت اور فوجی قیادت کے درمیان بھارت کے ساتھ تجارت کے معاملے پر اختلافات پائے جاتے ہیںتصویر: dapd

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان کی سیاسی قیادت بعض صنعتی شعبوں کے تحفظات کو طے کیے بغیر فوری طور پر پاک بھارت تجارت کو فروغ دینا چاہتی ہے جس سے یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ وہ یہ فیصلے کسی بیرونی دباؤ کے تحت کر رہی ہے جبکہ دوسری طرف عسکری قیادت ان تجارتی فیصلوں کو سیاسی ایشوز سے منسلک کر رہی ہے جو کہ ان کے بقول درست بات نہیں ہے۔

اگرچہ پاک بھارت تجارت کے حوالے سے تاجروں، صنعت کاروں اور اراکین پارلیمنٹ سمیت زیادہ تر لوگ پاک بھارت تجارت کے حق میں بات کر رہے ہیں لیکن پاکستان کے عسکری حلقوں سے وابستگی کا تاثر رکھنے والی کئی مذہبی جماعتیں اس کے خلاف ایک مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔

جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن نے بتایا کہ وہ بھارت جو کشمیریوں پر ظلم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہو اس سے تجارت کرنا پاکستان کے مفاد میں کیسے ہو سکتا ہے؟

رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور

ادارت: حماد کیانی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں