پاکستان کے لئے امریکی امداد: بعض شرائط پر پاکستان ناخوش
12 جون 2009امریکی ایوانِ نمائنگان نے آئندہ پانچ برسوں تک پاکستان کے لئے ہر سال ایک اعشاریہ پانچ بلین ڈالرز کی امداد کی منظوری تو دے دی ہے تاہم کہا ہے کہ پاکستان کے لیے یہ ’بلینک چیک‘ نہیں ہے۔ ایوانِ نمائندگان نے امداد کو اس بات سے مشروط کر دیا ہے کہ اوباما انتظامیہ اس بات کی تصدیق کرے کہ آیا پاکستان دہشت گرد تنظیموں اور گروہوں سے نمٹنے کے لئے امداد کا درست استعمال کر رہا ہے۔
امریکہ میں پاکستانی سفیر حسین حقّانی کے مطابق پاکستان امدادی بل کے مسودے کے چند حصّوں میں استعمال کی گئی زبان سے ناخوش ہے اور اس کی رائے ہے کہ یہ دہشت گردی کے خلاف مشترکہ جدوجہد کے حق میں نہیں جاتی۔
پاکستانی اعتراض کے جواب میں امریکی ایوانِ نمائندگان کے چیئر مین ہاورڈ بیرمین کا کہنا ہے کہ امریکی کانگریس صرف یہ چاہتی ہے کہ پاکستان اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی ادا کرے۔ ’ہم اس حوالے سے پاکستان کو کوئی ’بلینک چیک‘ نہیں دے سکتے،‘ ہاورڈ بیرمین۔
مذکورہ امدادی بل میں فوجی امداد کے علاوہ پاکستان کے تعلیمی شعبے، عدالتی نظام اور پارلیمانی اصلاحات کے لیے بھی رقم مختص کی گئی ہے۔
امریکی ایوانِ نمائندگان کی جانب سے اس بل کی منظوری ایک ایسے وقت سامنے آئی ہے، جب اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے بین الاقوامی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ مالاکنڈ آپریشن سے متاثر ہونے والے افراد کے لیے مزید امداد مہیا کریں۔ اس بل کی ابھی امریکی سینٹ سے منظوری باقی ہے۔
اس بل میں کی گئی ایک ترمیم کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں تجارتی مراکز بھی قائم کیے جائیں گے، جہاں سے ٹیکسٹائل اور دیگر اشیاء امریکہ کو ڈیوٹی فری داموں پر برآمد کی جائیں گی۔ اوباما انتظامیہ کے مطابق یہ تجارتی مراکز ان علاقوں میں روزگار مہیا کریں گے۔
بدھ کے روز پاکستان اور افغانستان کے لئے امریکہ کے خصوصی مندوب رچرڈ ہالبروک کا کہنا تھا کہ اسلامی شدّت پسندوں کے خلاف پاکستانی حکّام کے روّیے میں ڈرامائی تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔
بعض مبصرین کے مطابق یہ امر کہ امریکی صدر باراک اوباما کی انتظامیہ نے پاکستان کو ’بلینک چیک‘ دینے سے معذرت کر لی ہے، غالباً پاکستانی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے طالبان کے خلاف حالیہ شدید کارروائی کی وجہ بنا ہے۔