1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: ٹیکسٹائل صنعت کے لاکھوں کارکن ملازمتوں سے محروم

18 جنوری 2023

صنعت کے نمائندوں نے بتایا ہے کہ پاکستان کی ٹیکسٹائل کی برآمدات میں کمی کے باعث تقریباً 70 لاکھ ورکرز کو نوکریوں سے نکال دیا گیا ہے، جس سے یہ شعبہ تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔

https://p.dw.com/p/4MLzK
Pakistan Textilinsdustrie
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan

 

پاکستان کے 'ٹیکسٹائل حب‘ فیصل آباد میں ایک ٹیکسٹائل فیکڑی میں کام کرنے والے ایک مزدور اشرف علی کے لیے اپنی ملازمت سے ہاتھ دھونا گویا اس کی پوری زندگی کی تباہی ہے۔

42 سالہ علی سات بچوں کے باپ ہیں، ان کا کہنا تھا، ''ملک میں کپاس کی قلت کی وجہ سے مجھے ستارہ ٹیکسٹائل، فیصل آباد میں ملازمت سے برطرف کر دیا گیا تھا۔ میں نے اپنی زندگی کے 24 سال اس کمپنی کو دے دیے تھے اور نوکری سے نکالا جانا میرے لیے انتہائی افسوس ناک اور باعث دکھ تھا۔‘‘

گزشتہ سال کے سیلاب نے کپاس کی فصل کا ایک بڑا حصہ تباہ کر دیا تھا۔ سیلاب کے نتیجے میں 1,700 سے زائد افراد ہلاک اور 33 ملین سے زیادہ متاثر ہوئے، بلکہ اس نے اربوں ڈالر کا مالی نقصان بھی پہنچایا اور ملکی معیشت کو شدید دھچکا لگا۔

خام مال کا بحران

پاکستان کا شمار دنیا کے بڑے ٹیکسٹائل پروڈیوسرز میں ہوتا ہے۔ اس کی ٹیکسٹائل کی برآمدات 2021 ء میں 19.3 بلین ڈالر یا 17.8 بلین یورو رہی، جو ملک کی مجموعی برآمدات کا نصف سے زیادہ بنتی ہے۔ پاکستان کی بہت سی چھوٹی ٹیکسٹائل ملز اور 'مینوفیکچرنگ یونٹس‘ جو یورپ اور امریکہ میں صارفین کے لیے بیڈ شیٹس، تولیے اور ڈینم تیار کرتے ہیں، اب کپاس کی قلت کی وجہ سے بند ہو چکے ہیں۔ سب سے بڑھ کر اس صنعت کو ٹیکس میں کیے جانے والےحالیہ اضافے کا بھی مقابلہ کرنا پڑا۔ اس صنعت کو ان چیلنجز کا سامنا ایک ایسے وقت پر کرنا پڑا جب پاکستان کی اقتصادی صورتحال نہایت سنگین ہے۔

Pakistan Textilinsdustrie
پاکستان کی ٹیکسٹائل کی صنعت ایک عرصے سے بحران کا شکار ہےتصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan

 ایک طرف بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کا سخت پروگرام دوسری جانب افراط زر اور کرنسی کے کم ہوتے ذخائر کی وجہ سے یہ ملک اپنی معاشی بقا کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ ایسے میں اسلام آباد حکومت کی طرف سے عائد پابندیوں کی وجہ سے ٹیکسٹائل کی صنعت ضروری خام مال حاصل نہیں کر پا رہی اور نتیجتاً بین الاقوامی آرڈرز کو پورا کرنے میں ناکام ہو رہی ہے۔    

زرمبادلہ کے کم ہوتے ذخائر کی وجہ سے کراچی کی بندرگاہ پر خام مال، طبی آلات اور اشیائے خورونوش کے ہزاروں کنٹینرز پھنسے ہوئے ہیں۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق، گزشتہ ہفتے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 4.3 بلین ڈالر تک گر گئے، جو فروری 2014 ء کے بعد ان کی کم ترین سطح ہے۔

اسلام آباد آئی ایم ایف کے ساتھ تعطل کو ختم کرنے اور 1.1 بلین ڈالر کے قرضوں کے اجراء کے لیے بات چیت کرنے کی اُمید لگائے بیٹھا ہے جو ستمبر سے زیر التواء ہے۔

سیاسی کشیدگی براہ راست اثر انداز

ایک معاشی تجزیہ کار فرحان بخاری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''حکومت کو فوری طور پر آئی ایم ایف کے ساتھ تعطل کے مسئلے کو حل کرنا چاہیےتاکہ معاشی بے یقینی کو ختم کیا جا سکے، اور درآمدات اور قرضوں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ٹیکسٹائل پروڈیوسرز کے ساتھ بھی بات چیت ضروری ہے۔‘‘

Pakistan | Fabrik als Modell für bessere Arbeiterrechte
کپاس کی درآمد کے لیے 2 ارب ڈالر کے قرض کی ضرورت ہےتصویر: DW

اسی دوران فیصل آباد میں پاکستان 'ہوزری مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن‘ سے تعلق رکھنے والے محمد امجد خواجہ نے ٹیکسٹائل انڈسٹری کے زوال کو سیاسی کشیدگی کا نتیجہ قرار دیا۔  ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے خواجہ نے کہا، ''ملک میں سیاسی عدم استحکام کاروبار اور معیشت کو بہت زیادہ نقصان پہنچا رہا ہے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی سیاسی کشیدگی کے درمیان کاروباری شعبے میں اعتماد کا فقدان پیدا ہو چُکا ہے اور خریدار خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں۔‘‘

گزشتہ ماہ آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (APTMA) اپٹما نے وزیراعظم شہباز شریف سے ان معاملات میں مداخلت کا مطالبہ کیا تھا۔ دریں اثناء اپٹما کے سرپرست اعلیٰ گوہر اعجاز نے ایک خط میں تحریر کیا، ''بہت بڑی تعداد میں نوکریاں پہلے ہی ختم ہو چکی ہیں اور اگر فوری طور پر موثر اقدامات نے کیے گئے تو بقیہ ملازمتیں بھی باقی نہیں رہیں گی۔‘‘

گوہر اعجاز نے اسلام آباد میں امریکی سفیر کو ایک خط بھی لکھا ہے جس میں ان سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ پاکستان کو کپاس کی درآمد کے لیے 2 ارب ڈالر کے قرض کا بندوبست کریں۔ اعجاز نے واشنگٹن پر زور دیا کہ وہ پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لیے رعایتی قرضوں کا اعلان کرے۔

(ہارون جنجوا) ک م/ ع ا