1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کی سڑکیں آوازہ مزاج، انجام سے بے پرواہ

14 اکتوبر 2022

پاکستانی سڑکوں پہ ٹریفک بھی اللہ واسطے چل رہی ہے۔ سڑکوں پر گاڑی چلانے یا پیدل چلنے کی بہادری ایسی ہی ہے جیسے موت کا کنواں۔ پریکٹس سب کی ہے اس لیےبچ نکلتے ہیں، جس دن حساب آؤٹ ہوا تو یہ ایمان ہے کہ موت ایک دن آنی ہے۔

https://p.dw.com/p/4ICBN
Pakistan | DW Blogger Iffat Hasan Rizvi
کراچی کی تو پوری ٹریفک رانگ وے پر گاڑی چلانے کی ماہر ہے, عفت رضویتصویر: privat

ابھی حال ہی میں پاکستان کے علاقے چترال میں ایک ڈرائیور کی غفلت کے باعث ایک جنگلی لومڑی جان سے گئی۔ محکمہ جنگلی حیات نے اس واقعے کا مقدمہ نامعلوم ڈرائیور کے خلاف درج کیا ہے۔ ڈرائیور مل گیا تو یہ پتہ لگائیں گے کہ لومڑی کی غلطی تھی یا ڈرائیور کی۔ 

پاکستان میں ٹریفک لائسنسنگ کے طریقہ کار میں اتنے جھول ہیں کہ ڈرائیورز کو نہ انسانی جان کی قدر کا اندازہ ہے نہ ہی جانوروں کی۔ بلکہ یہ کہنا بہتر ہے کہ ہمارے ڈرائیونگ لائسنسنگ کے نظام میں ایسی نزاکتوں کی کوئی ٹریننگ سرے سے ہے ہی نہیں۔

پاکستان میں ڈرائیونگ لائسنس محض جان پہچان کی بنیاد پر بن جاتے ہیں، بعض کیسز میں تو درخواست گزار ٹریفک آفس تک نہیں آتے اور لائسنس گھر پہنچ جاتا ہے۔ پاکستان کے بعض شہروں میں تو ٹریفک لائسنس کی بھی ضرورت نہیں اور پکڑے جائیں تو کراچی سے خنجراب تک ٹریفک قوانین توڑنے والوں کے پاس ایک کامیاب حربہ ہوتا ہے اور وہ ہے فون گھما کر ٹریفک سارجنٹ سے کسی اعلیٰ شخصیت کی بات کروانا۔

 

ٹریفک کے قوانین پر عمل وہ کریں گے، جنہیں قوانین کا علم ہو گا۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستان میں کوئی آٹھ دس برس گاڑی چلانے اور لائسنس یافتہ ڈرائیور ہونے کے باوجود مجھے ٹریفک کے قوانین کا کوئی خاص علم نہ تھا۔ اور علم ہو بھی جاتا تو کوئی فائدہ نہ تھا کیونکہ سڑک پر رولز اس وقت کام آتے ہیں جب سب ایک ہی ردھم کے ساتھ ان پر عمل کریں۔

ٹریفک رولز سے پرے پاکستان کی سڑکوں کا اپنا مزاج ہے، شاید یہ سڑکیں ہی آوارہ مزاج اور انجام سے بے پرواہ ہیں۔ ان سڑکوں پر ٹیکسی والوں اور بس والوں کی اپنی ہی مرضی ہے، جہاں چاہے روک لیں ۔چمکیلی مہنگی گاڑیوں کی اپنی مرضی ہے چاہے تو انسانوں کے اوپر چڑھا دیں۔ بائیک والوں کی اپنی دنیا ہوتی ہے جس میں وہ چھپکلی کی مانند کبھی یہاں کبھی وہاں پھدکتے رینگتے اور دندناتے نکل جاتے ہیں۔ کراچی کی تو پوری ٹریفک رانگ وے پر گاڑی چلانے کی ماہر ہے۔

 ہماری ٹریفک کے سُدھار کا عمل ٹریفک لائسنسنگ کے نظام سے شروع ہو تو بات بنے۔ جنہیں سڑک پر گاڑی چلانا ہے اگر ان کی مناسب ٹریننگ نہیں ہو گی تو پھر جتنے مرضی قوانین بنالیں حادثے ہوتے رہیں گے، اچانک ٹریفک جام بھی ہوتے رہیں گے۔ 

لائسنس کو  ڈرائیورنگ ٹریننگ اور ٹریننگ سے قبل قوانین، ٹریفک کے اشاروں، سڑک پر بطور ڈرائیور فرائض، گاڑی اور انجن کے بنیادی علم کے امتحان سے مشروط کیا جانا ضروری ہے۔

میں نے  حال ہی میں ناروےکا ٹریفک تھیوری امتحان پاس کیا ہے۔ اس کی تیاری میں مجھے دو ہفتے لگ گئے۔ڈرائیونگ کیا ہے پوری پی ایچ ڈی کی سی ڈگری ہے گویا۔ قوانین کے اس امتحان میں فیل ہو جانا ایک عام سی بات ہے لیکن  قوانین کو طوطے کی طرح رٹے بغیر یہاں ٹریفک لائسنس حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ قوانین کی اس ٹریننگ میں ڈرائیورز کو یہاں تک تیار کیا جاتا ہے کہ اگر سڑک پر جنگلی بارہ سنگھا آجائے تو کیا کرنا ہے۔ جانور زخمی ہو جائے تو کیا کرنا ہے۔

ناروے میں سرما کے دوران سڑکوں پر کئی فٹ برف پڑنا اور پھسلن معمول ہے، سڑکیں کسی سانپ سیڑھی کی طرح اونچی نیچی آڑھی تیڑھی ہیں اور حد نگاہ اکثر موسم کے باعث نہایت کم ہوتی ہے۔ اس کے باوجود گزشتہ برس ناروے میں ٹریفک حادثات میں ہلاکتیں سو سے بھی کم رہیں۔ کچھ عرصہ قبل خطرناک حادثات کی شرح یہاں بھی کافی تھی لیکن پھر نارویجن حکومت نے ٹریفک لائسنس جاری کرنے، لائسنس ضبط کرنے، لائسنس میں پوائنٹ سسٹم پر عمل کرنے کے نظام کو مزید سخت کیا۔

نارویجن ٹریفک حکام کی کوشش یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ افراد پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کریں، کم سے کم افراد اپنی گاڑی خریدیں اور اپنی گاڑی چلانے کے لیے لائسنس لینے والے افراد مشکل ٹریننگز کے فلٹر سے گزر کر سڑک پر آئیں۔

اب یہ حال ہے کہ ناروے میں ٹریفک لائسنس کے حصول میں ٹریننگ، تھیوری اور لازمی کلاسز لینے، ٹیسٹ دینے کا لگ بھگ خرچہ پاکستانی روپے میں چھ سات لاکھ سے تجاوز کر جاتا ہے۔ اس لیے سب کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ ایک ہی بار میں دل لگا کر ٹریفک کے امتحان دیے جائیں۔

فرض کریں کہ اتنے پاپڑ بیل کر لائسنس مل بھی جائے تو آگے ہر چھوٹی غلطی پر پوائنٹ سسٹم لاگو ہوتا ہے۔ بھاری جرمانے پڑتے ہیں۔ بڑی غلطی پر لائسنس معطل ہو جاتے ہیں یعنی پھر زیرو سے شروع کرو۔

 ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان میں ہر ایک لاکھ افراد پر ٹریفک حادثات میں ہلاکتوں کی شرح پندرہ ہے جبکہ ناروے میں یہ شرح دو ہے۔اگرچہ ہماری بے حد و حساب آبادی اور تعلیم و شعور میں کمی بھی اس کی وجوہات ہیں لیکن مبہم ٹریفک قوانین، کمزور لائسنسنگ کا نظام اور ٹریفک پولیس میں رشوت یا کام چوری نے بھی بگاڑ میں کردار ادا کیا ہے۔ 

ہمارے رکشہ، ٹیکسی، بس، ٹرک،لوڈنگ، بائیکس، کار اور گھوڑے یا گدھے گاڑی چلانے والوں کو پہلا سبق یہ پڑھانا ہو گا کہ سڑکیں صرف اس پر دوڑتی گاڑیوں کی ملکیت نہیں ہوتیں۔سڑک پار کرنے والوں، فٹ پاتھ پر چلنے والوں، سائیکل سواروں، یہاں تک کے سڑک کے ارد گرد علاقے میں موجود جانوروں کا بھی ان سڑکوں پر برابر کا حق ہے۔

باقی ٹریفک قوانین کا شعور ہمیں تب آئے گا، جب ہم خود بھی سڑکوں پہ طاقت ور اور کمزور کا رشتہ سمجھنے کی کوشش کریں گے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو  کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔