پاکستان کو تباہی کے دہانے پر دیکھنے کے خواہش مند نہیں، باراک اوباما
7 مئی 2009امریکی صدر باراک اوباما نے پاکستان اور افغانستان کے صدور کے ساتھ گذشتہ روز واشنگٹن میں جو ملاقات کی اس کا بنیادی مقصد تو طالبان کے خلاف جنگ کے حوالے سے حکمت عملی طے کرنا تھا مگر ایک مدت کے بعد امریکہ کی پاک افغان پالیسی میں جمہوری عمل کے استحکام اور اس کے لئے انتھک کوششوں کا بھی تفصیلی ذکر سننے میں آیا۔
پاکستانی صدر آصف زرداری اور افغان صدر حامد کارزئی سے ملاقات کے بعد امریکی صدر اوباما کی نامہ نگاروں سے گفتگو کے دوران واشنگٹن کے ان دونوں ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات پر کھل کر اظہار خیال کیا گیا۔ جہاں اس گفتگو میں ایک طرف طالبان کے خلاف جنگ کی شدت میں اضافے کا عزم دوہرایا گیا وہیں پر ان دونوں ملکوں میں جمہوری نظام کو مستحکم کرنے کی نئی امریکی حکمت عملی کا ذکر بھی کیا گیا، خاص کر پاکستان کے حوالے سے۔
باراک اوباما کا اس موقع پر کہنا تھا کہ امریکہ ایسی قوتوں کا ساتھ نہیں دینا چاہتا جو پاکستان کو تباہی کے دہانے پر دیکھنے کی خواہشمند ہیں بلکہ وہ ایسی قوتوں کے ساتھ کھڑا ہونا ہے جو پاکستان کی تعمیر میں میں معاون ثابت ہوسکتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسی لئے امریکی کانگریس سے اسکولوں، سڑکوں اور ہسپتالوں کی تعمیر کے لئے مالی وسائل کی مسلسل فراہمی کے لئے کہا گیا ہے۔
پاکستان میں عوامی سطح پر امریکی حکومت کے بارے میں مثبت تاثر پیدا کرنے کے حوالے سے باراک اوباما کا کہنا تھا کہا ان کی خواہش ہے کہ پاکستانی عوام اس بات کو محسوس کریں کہ امریکہ صرف دہشت گردی کے خلاف ہی نہیں ہے بلکہ اسی سلسلے میں پاکستانی عوام کی امیدوں اور خوہشات کے بھی ساتھ ہے۔
اگرچہ کہا جارہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے سربراہان کے موقف میں خاص تبدیلی نہیں دیکھی گئی مگرماہرین کی رائے میں امریکی صدر اوباما، بش حکومت کی پاکستان اور افغانستان کے بارے میں گذشتہ حکمت عملی میں ایک بڑی تبدیلی کے خواہاں ہیں۔
بش انتظامیہ کی سیاست، جوکہ عموما سربراہان مملکت کے درمیان تعلقات پر مبنی ہوا کرتی تھی، ان ملکوں میں مضبوط نظام حکومت اور عوام کو نظر انداز کرتی نظر آتی تھی۔ اس سلسلے میں اوباما نے پاکستان اور افغانستان کے افغانستان میں جنگ کے حوالے سے تعاون کو بھی سراہا اور اِس اشتراک عمل میں مزید اضافے کی بات بھی کی۔
باراک اوباما کی پاک افغان حکمت عملی میں یہ تبدیلی اس وقت دیکھنے میں آرہی ہے جب کہ امریکہ کو افغانستان میں اتحادی فوجوں کے فضائی حملوں میں سو سے زائد عام شہریوں کی ہلاکت پر کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
امریکی ماہرین کچھ عرصہ پہلے تک پاکستان کے طالبان کے ساتھ مبینہ طور پر نرم رویئے اور سوات میں طے پانے والے امن معاہدے کی وجہ سے بھی کافی شاکی تھے مگر اب سوات میں فوجی آپریشن پر یہی ماہرین بظاہر اپنے اطمینان کا اظہار رکرہے ہین۔ اس حوالے سے صدر اوباما کا کہنا ہے تینوں ممالک کی سلامتی ایک دوسرے سے منسلک ہے۔
تینوں ملکوں کے تعلقات اس وقت اگرچہ بظاہر بہتری کی طرف مائل ہیں لیکن مستقبل میں یہی تعلقات کیا رخ اختیار کرتے ہیں، اس کا دارومدار پاکستان اور افغانستان میں طالبان کے خلاف جنگی کارروائیوں کی کامیابی پرہوگا۔