1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان نے ملا عبدالغنی برادر کو رہا کر دیا

ندیم گِل21 ستمبر 2013

پاکستان نے افغان طالبان کے اعلیٰ رہنما ملا عبدالغنی برادر کو آج ہفتے کے روز رہا کر دیا۔ اس رہائی کی اسلام آباد میں حکام نے تصدیق کر دی ہے۔

https://p.dw.com/p/19lPL
تصویر: Reuters

پاکستان کی وزارت خارجہ نے جمعے کو ایک بیان میں کہا: ’’افغان مصالحتی عمل میں مزید معاونت کے لیے، طالبان کے رہنما ملا عبدالغنی برادر کو کل (ہفتے کو) رہا کر دیا جائے گا۔‘‘

افغانستان کی حکومت طویل عرصے سے پاکستان سےبرادر کی رہائی کا مطالبہ کرتی رہی ہے۔ افغان صدر حامد کرزئی کے ترجمان ایمل فیضی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا: ’’ہم خیرمقدم کرتے ہیں کہ یہ قدم اٹھایا جا رہا ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا: ’’ہمیں یقین ہے کہ اس سے افغان امن عمل میں مدد ملے گی ... ہمیں اس بات کی خوشی ہے۔‘‘

قومی سلامتی اور خارجہ امور کے لیے پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کے مرکزی مشیر سرتاج عزیز نے پیر کو ایک بیان میں کہا تھا کہ برادر کو رواں ہفتے رہا کر دیا جائے گا۔

برادر کی رہائی سے پاکستان کی جانب سے گزشتہ برس سے اب تک رہا کیے کیے گئے طالبان قیدیوں کی تعداد 34 ہو جائے گی۔ افغان حکام اِن قیدیوں کی رہائی کو طالبان شدت پسندوں کے ساتھ امن مذاکرات کے لیے اہم قرار دیتی ہے۔

Sartaj Aziz außenpolitischer Berater Pakistan zu Entlassung von Taliban Mullah Baradar
سرتاج عزیزتصویر: Reuters

حامد کرزئی نے پاکستان پر زور دیا تھا کہ وہ کابل حکومت اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات کے لیے مدد کرے۔ طالبان کرزئی کو ’امریکی کٹھ پُتلی‘ قرار دیتے ہیں اور ان کی حکومت کے ساتھ بات چیت سے انکار کر چکے ہیں۔

سرتاج عزیز کہہ چکے ہیں کہ برادر کو کابل حکومت کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔ اے ایف پی کے مطابق تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ برادر کی رہائی سے مذاکرات پر کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔

اس بات کے زیادہ ثبوت دستیاب نہیں کہ طالبان قیدیوں کی رہائی سے امن مذاکرات پر کوئی مثبت اثرات مرتب ہوئے ہوں۔ متعدد قیدیوں کے بارے میں خیال ہے کہ وہ واپسی پر لڑائی کا حصہ بن گئے۔

برادر کو 2010ء میں گرفتار کیا گیا تھا جس کے بعد پاکستان پر الزام لگایا گیا تھا کہ وہ افغانستان میں قیامِ امن کی کوششوں کو سبوتاژ کر رہا ہے۔ اسے کراچی سے گرفتار کیا گیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کی گرفتاری سی آئی اے اور پاکستانی ایجنٹوں کی ایک خفیہ کارروائی کا نتیجہ تھی اور اسے طالبان کے لیے بہت بڑا دھچکا قرار دیا گیا تھا۔

برادر طالبان کا ملٹری چیف رہ چکا ہے اور اسے اکثر شدت پسندوں کا سیکنڈ اِن کمانڈ بھی قرار دیا جاتا رہا ہے۔