1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان نے سالانہ بجٹ میں اہم موقع گنوا دیا، آئی ایم ایف

15 جون 2023

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے حکومت پاکستان کے سالانہ بجٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ غیر ملکی زرمبادلہ کی کمی سے دوچار ملک کے لیے یہ ایک بڑا دھچکا ہے جس کے بیل آوٹ پروگرام کی مدت ختم ہونے میں دو ہفتے رہ گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4SaM2
IWF Logo, Schild
تصویر: Maksym Yemelyanov/Zoonar/picture alliance

پاکستان کے پاس بمشکل ایک ماہ کی درآمدات کو پورا کرنے کے لیے زرمبادلہ کے ذخائر باقی ہیں۔ اسے نومبر میں 1.1 ارب ڈالر کے فنڈ جاری ہو جانے کی امید تھی لیکن بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے مزید ادائیگیوں سے قبل کئی شرائط عائد کر دیں۔

پاکستان سے توقع کی جا رہی تھی کہ وہ ایسا بجٹ پیش کرے گا جو آئی ایم ایف کے پروگرام سے ہم آہنگ ہو۔ اس کے علاوہ توقع تھی کہ فارن ایکسچنج مارکیٹ کا معمول کے مطابق کام بحال کیا جائے گا اور محصولات اور اخراجات میں چھ ارب ڈالر کے فرق کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔

ان اقدامات کے بعد ہی 6.5 ارب ڈالر کی توسیع شدہ قرض کی سہولت (ای ایف ایف) کے لیے آئی ایم ایف کے حتمی جائزے کی راہ ہموار ہوتی۔

پاکستان کا نئے مالی سال کے لیے بجٹ، تعریف بھی اور تنقید بھی

پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کی نمائندہ ایستھر پیریز روئز نے بتایا کہ "عملہ استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے پالیسیوں پر پاکستانی حکام سے بات کرنے میں مصروف ہے۔ تاہم مالی سال 2024 کے بجٹ نے زیادہ ترقی پسند انداز میں ٹیکس کی بنیاد کو وسعت دینے کا موقع گنوا دیا ہے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ نئے ٹیکس اخراجات کی طویل فہرست ٹیکس کے نظام کی شفافت کو مزید کم کرتی ہے اور یہ 'بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام' میں غریب طبقے کے لیے درکار وسائل کو بھی کم کرتی ہے۔

پاکستان سے توقع کی جا رہی تھی کہ وہ ایسا بجٹ پیش کرے گا جو آئی ایم ایف کے پروگرام سے ہم آہنگ ہو
پاکستان سے توقع کی جا رہی تھی کہ وہ ایسا بجٹ پیش کرے گا جو آئی ایم ایف کے پروگرام سے ہم آہنگ ہوتصویر: Hussain Ali/Pacific Press/picture alliance

آخری موقع اب بھی موجود ہے

پیریز روئز کا کہنا تھا، "نئی ٹیکس ایمنسٹی پروگرام کی شرائط اور گورننس کے ایجنڈے کے خلاف ہے، جو نقصان دہ مثال قائم کرتی ہے۔"

انہوں نے کہا کہ توانائی کے شعبے کے لیکویڈیٹی کے دباو سے نمٹنے کے لیے اقدامات کو بجٹ کی وسیع حکمت عملی میں شامل کیا جاسکتا تھا۔

پاکستان میں آئی ایم ایف کی نمائندہ نے کہا، "آئی ایم ایف کی ٹیم اس بجٹ کی منظوری سے قبل حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے۔"

اس کا مطلب ہے کہ پاکستان کے پاس ائی ایف ایف پروگرام کے اختتام سے قبل نویں بورڈ جائزے کو بچانے کا موقع اب بھی موجود ہے۔

حکومت پاکستان کے ترجمان نے اس معاملے پر فوری طور پر تبصرے کی روئٹرز کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔

خیال رہے کہ قبل ازیں وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ تھا کہ حکومت نے آئی ایم ایف کی سربراہ کی جانب سے فنڈ کی منظوری کے حوالے سے زبانی یقین دہانی کے بعد بجٹ تجاویز میں بعض اقدامات کیے ہیں۔

خواجہ آصف نے کہا کہ لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے اور ہمارے اندر اتنی جرات نہیں کہ ٹیکس بڑھا کر قومی دولت میں اضافہ کرسکیں
خواجہ آصف نے کہا کہ لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے اور ہمارے اندر اتنی جرات نہیں کہ ٹیکس بڑھا کر قومی دولت میں اضافہ کرسکیںتصویر: Nicolas Asfouri/AFP/Getty Images

اقتصادی تصویر مایوس کن، خواجہ آصف

اسی دوران پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف نے ملکی معیشت کی مایوس کن تصویر پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے ملک میں بہتر بجٹ  کیسے پیش کیا جاسکتا ہے جہاں 3500ارب روپے کی ٹیکس چوری ہوتی ہے۔

قومی اسمبلی میں بجٹ پر مباحثے میں حصہ لیتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ ملک کی 80فیصد آبادی کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں ہے لیکن امیروں کے لیے قوانین میں ترامیم کیے جارہے ہیں۔

خواجہ آصف نے کہا "لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ ہمارے اندر اتنی جرات نہیں کہ ٹیکس بڑھا کر قومی دولت میں اضافہ کرسکیں۔ ہر کوئی گردن تک قرض میں ڈوبا ہوا ہے حتیٰ کہ خراب معیشت کی وجہ سے ہمارا وجود بھی خطرے میں پڑ گیا ہے۔"

پاکستان جنوبی ایشیا میں افراط زر کی سب سے بلند شرح والا ملک

انہوں نے کہا کہ وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے آئندہ مالی سال کے لیے بجٹ میں عوام کوراحت دینے کی ہر ممکن کوشش کی ہے اور وہ کسی حد تک اس میں کامیاب بھی ہوئے ہیں  لیکن عام آدمی کی حالت اب بھی ناگفتہ بہ ہے۔

ج ا/ ص ز (روئٹرز، نیوز ایجنسیاں)