1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں ’نا خواہش کردہ‘ بچے، قتل تو قتل ہے

19 دسمبر 2022

پاکستان میں ’نا خواہش کردہ‘ نومولود بچوں کو کوڑے کے ڈھیر یا کچرا کنڈی میں پھینکنے کے واقعات دیکھنے اور سننے کو ملتے رہتے ہے، لیکن کچھ خیراتی ادارے لاوارث چھوڑ دیے جانے والے ان بچوں کی زندگی بچانے کا کام کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4L9LF
Pakistan | Monsun Überschwemmungen
تصویر: Akhtar Soomro/REUTERS

پاکستان میں خیراتی سرگرمیوں کی انجام دہی سے ممتاز مقام حاصل کرنے والی تنظیم ایدھی فاؤنڈیشن کے مراکز کے باہر ایک گہوارہ رکھ  دیا جاتا ہے۔ غیر ازدواجی جنسی تعلقات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کے والدین رات کے اندھیرے میں انہیں اس گہوارے میں چھوڑ جاتے ہیں جہاں سے ایدھی فاؤنڈیشن کا عملہ انہیں پرورش گاہ میں پہنچا دیتا ہے۔

ایدھی فاؤنڈیشن نے ملک کے طول و عرض میں ایسے 300 گہوارے فراہم کر رکھے ہیں۔ اس تنظیم کے بانی عبدالستار ایدھی نے ایسے بچوں کی پرورش کے لیے 'جھولے‘ کے نام سے اس سلسلے کا آغاز 1952ء میں کیا تھا۔ فاؤنڈیشن کے موجودہ سربراہ فیصل ایدھی نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ''ہمارے اس منصوبے کا مقصد اُن نومولود بچوں کی زندگیاں بچانا ہے جنہیں پہلے کوڑے کے ڈھیروں اور ویران جگہوں پر پھینک دیا جاتا تھا۔‘‘

 اسی سلسلے کی پیروی کرتے ہوئے 'چھیپا ویلفیئر ایسوسی ایشن‘ نے پاکستان میں معاشی سرگرمیوں کے سب سے بڑے مرکز کراچی شہر میں 100 ایسے گہوارے رکھوائے ہیں۔ دیگر خیراتی ادارے بھی ملک کے طول و عرض میں یتیم خانے چلا رہے ہیں لیکن ان کے پاس لاوارث چھوڑ دیے جانے والے بچے اتنی تعداد میں نہیں پہنچتے جتنے ایدھی فاؤنڈیشن اور چھیپا ویلفیئر ایسوسی ایشن کے پاس آتے ہیں۔

پاکستان میں لوگ بچوں کو کیوں پھینک دیتے ہیں؟

پاکستان میں سڑک کنارے پھینک دیے جانے والے اکثر بچے غیر ازدوجی جنسی تعلقات میں احتیاطی تدابیر اختیار نہ کرنے کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں۔ اسی طرح اسقاط حمل کی سہولیات تک آسان رسائی نہ ہونے کی وجی سے جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی کئی خواتین حاملہ ہوجاتی ہیں۔ 

پاکستان کے قدامت پرست سماج میں غیر شادی شدہ ماؤں کو اکثراچھا نہیں سمجھا جاتا۔ لہٰذا اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کسی بھی غیر ازدوجی جنسی تعلق کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کو یا تو قتل کرنے یا پھر انتہائی سفاکی کے ساتھ ان کا نام و نشان مٹانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

فیصل ایدھی نے بتایا کہ فاؤنڈیشن کے مراکز پر چھوڑے جانے والے بچوں میں 95 فیصد لڑکیاں ہوتی ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ غریب اور قدامت پرست گھرانے لڑکیوں کو بوجھ تصور کرتے ہیں۔ تنظیم ان بچوں کی یتیم خانے میں پرورش کرتی ہے یا شادی شدہ جوڑوں کو یہ بچے گود لینے کے لیے فراہم کردیتی ہے، لیکن ایسا کرنے سے پہلے بچوں کو گود لینے والے جوڑے کی مکمل چھان بین کی جاتی ہے اور ان سے تفصیلی گفت و شنید کی جاتی ہے۔ ایدھی نے بتایا کہ جن بچوں کو گود لیا جاتا ہے ان کی بعد میں بھی نگرانی کی جاتی ہے۔

'چھیپا ویلفیئر ایسوسی ایشن‘ کے ایک اہلکار محمد شاہد نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ لاوارث چھوڑ دیے جانے والے بچوں کی اکثریت شہروں کے مضافات سے ملتی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ایسے بچوں میں 70 فیصد لڑکیاں ہوتی ہیں اور ان میں سے آدھے مردہ حالت میں ہوتے ہیں۔ اسلام آباد کے پولی کلینک ہسپتال میں تعینات ڈاکٹر نیاز محمد نے بتایا کہ نا خواہش کردہ بچوں کی پیدائش کے لیے ہسپتال کا رُخ کرنے والی خواتین کی تعداد بہت کم ہوتی ہے اور ان میں سے کچھ زچگی کے عمل سے گزرنے کے بعد ہسپتال سے فرار ہو جاتی ہیں۔

کیا بچوں کو چھوڑ دینے والے والدین کو سزا ہو سکتی ہے؟

اپنے بچوں کو رد کرنے کا عمل پاکستان کے قانون میں قابل تعزیر جرم ہے۔ پاکستان پینل کوڈ کی رو سے اگر کوئی باپ، ماں یا سرپرست 12 برس سے کم عمر بچے کو اپنے سایہء عافیت سے محروم کرے تو اسے سات برس قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ یہ بات قانون دان ندیم فرحت گیلانی نے ڈی ڈبلیو کو بتائی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اگر ایسا کرنے کے نتیجے میں بچے کی جان چلی جاتی ہے تو والدین کے خلاف قتل کا مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔

اسلام آباد میں تعینات ایک پولیس اہلکار نے بتایا کہ قانون نافذ کرنے والے اس بات کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ لوگ بچوں کو لاوارث پھینکنے کے بجائے خیراتی ادارے کے سپرد کر دیا جائے۔ رد کیے گئے کسی بھی بچے کی موت قتل عمد (سوچے سمجھے منصوبے کے تحت قتل) کے زمرے میں آتی ہے لہٰذا ایسے معاملات میں پولیس قانونی کارروائی کی پابند ہوتی ہے۔ لیکن زیادہ تر معاملات میں قصور وار کا پتہ نہیں چل پاتا اور مجرم سزا سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔

 

گہوارے فراہم کرنے پر دینی علماء کیا کہتے ہیں؟

پاکستان میں دینی تنظیمیں ایسےبچوں کے لیے گہوارےفراہم کرنے کے خلاف ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ جھولے لگا دینے سے اس مسئلے کا جڑ سے خاتمہ نہیں ہوتا۔ امام مسجد محمد کامل نے اس معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس عمل کی روک تھام کے لیے پورے معاشرے کی اصلاح ضروری ہے۔ اُن کا کہنا تھا ''ضرورت اس بات کی ہے کہ پہلے اس بات کا درست تعین کرلیا جائے کہ لوگ کیوں بچوں کو پھینک جاتے ہیں اور پھر محض ناخواہش کردہ بچوں کو گود لینے کی بجائے اصلاح احوال کی طرف دھیان دیا جائے۔‘‘

دوسری جانب پارلیمنٹ اور حکومت کی دینی معاملات پر رہنمائی کرنے والے ادارے اسلامی نظریاتی کونسل  کے چیئرمین قبلہ ایاز کا ماننا ہے کہ رد کیے گئے بچوں کے قتل یا انہیں ضائع کر دینے سے کہیں بہتر یہ ہے انہیں جھولے میں ڈال دیا جائے۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ بچے اپنی مرضی سے پیدا نہیں ہوتے۔ لہٰذا اُن کے اس دنیا میں آنے کے ذمہ دار والدین ہیں نہ کہ وہ بچے خود۔ انہوں نے مزید کہا، ''جس طرح بغیر نکاح جنسی تعلقات اسلام میں حرام ہیں، اسی طرح کسی کو قتل کرنا بھی حرام ہے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید