پاکستان میں قرضوں کی معافی، قومی اسمبلی میں ہوشربا اعدادوشمار
6 اگست 2009سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں 86 ارب روپے کے قرضے معاف کئے گئے جبکہ موجودہ زرداری حکومت نے بھی اپنے پیشرو کے نقش قدم پر چلتے ہوئے صرف ایک سال کے قلیل عرصے میں 33 ارب روپے کا قرضہ معاف کیا۔ قابل ذکر امر یہ ہے کہ عوام کے خون پسینے سے کمائی ہوئی قومی دولت کی قرضوں کی شکل میں معافی کے اس کھیل میں بااثر صنعتکار، جاگیر دار، سیاستدان اور بیورو کریٹس شامل ہیں۔
اقتصادی ماہرین کے مطابق ایک ایسے وقت میں جبکہ نجی پاور کمپنیوں کو واجبات کی عدم ادائیگی کی وجہ سے پورا ملک شدید لوڈ شیڈنگ کی زد میں ہے، اتنی خطیر رقم کی قرضوں کی صورت میں معافی، حکمرانوں کےلئے ایک تازیانے سے کم نہیں۔ ماہر اقتصادیات ڈاکٹر فرخ سلیم نے ڈوئچے ویلے کے لئے ایک انٹرویو میں بتایا کہ کرائے کے بجلی گھروں کا حکومتی مجوزہ منصوبہ بھی بینکوں ہی سے حاصل کئے گئے قرضوں پرچلایا جائے گا اور اس کی لاگت اور افادیت کے درمیان واضح فرق کے سبب یہ قرضے بھی ڈوبنے کا خدشہ ہے :’’بینکوں پر ایک بار پھر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ کرائے کے بجلی گھروں کےلئے مزید قرضہ جات فراہم کریں۔ بینکوں کو اس بات کا احساس ہے کہ کرائے کے بجلی گھروں کا منصوبہ بہت بڑا ہے اس میں اگر مزید قرضے دیئے گئے تو وہ ڈوب جائیں گے۔ خود مختار ادارے پی پی آئی پی، نیپرا یا پیپکو، یہ سب ان کرائے کے بجلی گھروں کے خلاف ہیں لیکن سیاسی قیادت اس بات پر زور دے رہی ہے کہ بینکوں سے مزید قرضہ جات لے کر ان کو کرائے کے بجلی گھروں میں ڈبو دیئے جائیں۔‘‘
خیال رہے کہ سابق صدر پرویز مشرف نے 3 نومبر2007ء کو ملک میں ہنگامی حالت نافذ کی تو اس وقت بھی سپریم کورٹ میں زیر سماعت دیگر مقدموں میں سے ایک قرضوں کی معافی کا تھا۔ تاہم سپریم کورٹ کے ججوں کی برطرفی نے اس مقدمے کو بھی سرد خانے میں ڈال دیا تھا جو اس کے بعد اب تک زیر غور نہیں آ سکا۔ البتہ اب قرضوں کی معافی سے متعلق خبروں کے سامنے آنے کے بعد یہ امید ہو چلی ہے کہ سپریم کورٹ عوامی اہمیت کے اس مقدمے پر دوبارہ غور کرے گی اور شاید عوام اس ذریعے ان لوگوں کے کوائف جان پائیں جو اس کھیل کا حصہ ہے۔
رپورٹ : امتیاز گل، اسلام آباد
ادارت : عاطف توقیر