پاکستان میں دہشت گردی اور میڈیا کا کردار
3 نومبر 2009پاکستان میں اس وقت پچاس کے قریب نجی ٹیلی ویژن چینل موجود ہیں جبکہ نو سال قبل ملک میں صرف ایک جز وقتی نجی چینل ہوا کرتا تھا۔ ان چینلز کی تعداد بڑھنے اور ملک میں دہشت گردی کی حالیہ لہر کے باعث بعض چینلز کو متعدد بار حکومت کی جانب سے بند بھی کیا گیا۔ حال ہی میں ایک مرتبہ پھر حکومت کی جانب کی جانب سے بعض چینلز کو انتباہی نوٹسز جاری کئےگئے ہیں۔
پاکستانی صحافیوں کی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی جانب سے صورتحال کی ذمہ داری چینل مالکان پر بھی ڈالی جا رہی ہے ۔ تنظیم کے سیکریٹری جنرل شمس الاسلام ناز کا اس حوالے سےکہنا ہے کہ اِس کے پیچھے ایک اور ہی داستان ہے۔ اُنہوں نےبتایا کہ الیکٹرانک چینلز کے مالکان نے اپنے ورکرز کو ہر قسم کی مراعات سے محروم کر رکھا ہے۔ اِن مالکان نے لائسنس لے رکھے ہیں اور اُنہیں بھاری فیسیں مختلف مدوں میں وفاقی حکومت کے ہاں جمع کروانا پڑتی ہیں۔ یہ فیسیں وقت کے ساتھ ساتھ اربوں مالیت تک پہنچ چکی ہیں۔ اِنہی فیسوں سے بچنے کے لئے اب یہ مالکان یہ ڈرمہ رچا رہے ہیں کہ حکومت میڈیا پر کوئی پابندیاں عائد کر رہی ہے۔
خبریں اور حالات حاضرہ سے متعلق پروگرام نشر کرنے والے چینلز میں اطلاعات کے مطابق کام کرنے والے صحافیوں میں تربیت کی بھی کمی ہے۔ حکومت کی جانب سے متعدد بار اس بات کی نشاندہی کی جاتی رہی ہے کہ بسا اوقات خود صحافیوں کی جانب صحافتی ضوابط پر عمل نہیں کیا جاتا اور مقابلے کی دوڑ میں ہر قسم کے واقعات و مناظر ٹیلی ویژن چینلز پر دکھا دئے جاتے ہیں۔ PFUJ کے سیکریٹری جنرل نے اس بات کو تسلیم کیا اور بتایا کہ لوگ ہسپتالوں میں زخمی حالت میں پڑے ہوتے ہیں، اُنہیں آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ قریب المرگ ہوتے ہیں جبکہ غیر تربیت یافتہ صحافی میڈیا کی آزادی کا حوالہ دے کر اُن سے یہ پوچھ رہے ہوتے ہیں کہ دھماکہ کیسے ہوا۔ ایسے میں صحافی برادری کو خود سوچنا چاہیے کہ کیا چیز زیادہ اہم ہے، صحافتی ذمہ داریاں یا کسی انسان کی جان۔
حالیہ اعداد وشمار کے مطابق حکومت نے جیو، ڈان، ایکسپریس اور خیبرٹی وی کے بشمول متعدد ٹی وی چینلز کو باقاعدہ قانونی نوٹسز جاری کر دئے ہیں۔ ایسی صورتحال میں کیا ایک مرتبہ پھر سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف دور کےآخری دنوں کی طرح حکومت اور میڈیا کی جنگ ہونے والی ہے، صحافیوں کی نمائندگی کرنے والے شمس الاسلام ناز کے مطابق موجودہ حکومت اِس طرح کا خطرہ کبھی مول نہیں لے گی کیونکہ میڈیا اور صحافی برادری ایسی کسی قدغن کو قبول نہیں کرے گی۔
رپورٹ: شادی خان
ادارت: امجد علی