1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں خواجہ سراؤں کی جنس کے تعین سے متعلق قانون کالعدم

19 مئی 2023

وفاقی شرعی عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ کسی بھی فرد کے لیے اپنی جنس کا تعین خود کرنا ’اسلامی احکامات‘ کے خلاف ہے۔ خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں نے اس فیصلے کو چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4RZt2
DW Investigativ Pakistan Transgender
تصویر: Arif Ali/AFP/Getty Images

پاکستان کی ایک عدالت نے جمعہ 19 مئی کو اس قانون کو کالعدم قرار دے دیا، جس کے تحت خواجہ سراؤں  کو اپنی صنفی شناخت کا انتخاب کرنے کا حق دیا گیا تھا۔ ملک میں مذہبی مسائل کے بارے میں فیصلوں کے لیے قائم وفاقی شرعی عدالت (ایف ایس سی) کےایک اہلکار نے جرمن خبر رساں ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا کہ دو رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا  ہے کہ کسی بھی فرد کے لیے اپنی جنس کا تعین خود کرنا 'اسلامی احکامات‘ کے خلاف ہے۔

حساس مردوں کو زنانہ کہنا ایک گالی کیوں ہے؟

Pakistan Transgender Neeli Rana
پاکستانی معاشرے میں خواجہ سراؤں کو امتیازی سلوک کا سامنا ہےتصویر: Tanvir Shahzad/DW

ایف ایس سی کے ترجمان محمد طارق نے کہا کہ آج کے عدالتی فیصلے نے (جنس کے تعین) کےاس قانون کو مؤثر طور پر ختم کر دیا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں زیادہ تر خواجہ سرا مشکل زندگی گزارتے ہیں۔ ان کے  خاندانوں کی طرف سے اکثر  ان سے ترک تعلق کر دیا جاتا ہے اور ریاست کی طرف بھی انہیں نظر انداز کیا جاتا ہے۔ ان میں سے بہت سے لوگ زندہ رہنے کے لیے جسم فروشی پر مجبور ہیں۔

ان کے خلاف قتل، اغوا، ڈرانے دھمکانے، بدسلوکی اور ہراساں کرنے جیسے جرائم عام ہیں اور زیادہ تر ایسے کیسز رپورٹ بھی نہیں ہوتے ہیں کیونکہ اس کمیونٹی کو پولیس پر اعتماد نہیں۔ 2018 ء میں خواجہ سراؤں کو اپنی جنس کے تعین کا اختیار دینے سے متعلق قانون کی منظوری کو  انسانی حقوق کے کارکنوں اور گروپوں نے اس امید کے ساتھ خوش آئند قرار دیا تھا کہ یہ پسماندہ افراد کے لیے احترام کا ایک ذریعہ ہوگا۔

لیکن اسلامی گروہوں اور دائیں بازو کے کارکنوں نے اس قانون کو عدالت میں چیلنج کیا اور دعویٰ کیا کہ بغیر کسی طبی معائنے کے جنس کے انتخاب کا حق دینے سے ملک میں ایل جی بی ٹی کیو کے رجحانات کو فروغ ملے گا۔

ٹرانس جینڈرز کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کا کہنا ہے کہ وہ شرعی عدالت کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کریں گے۔ ایک ٹرانس جینڈر اور اس کمیونٹی کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک کارکن نایاب علی نے ڈی پی اے کو بتایا، ''ہم آج کے فیصلے کو مسترد کرتے ہیں۔ ایل جی بی ٹی سرگرمیوں کے فروغ پر قانونی قدغنیں لگانے سے ہماری زندگیوں کو مزید خطرہ لاحق ہو جائے گا۔‘‘

ش ر/اب ا ( ڈی پی اے)

 

پاکستان میں ٹرانس جینڈر بل 2018ء کو تنقید کا سامنا کیوں؟