پاکستان میں امدادی گروپوں پر پابندی، دنیا کو ’شدید تحفظات‘
25 اکتوبر 2018روئٹرز کے مطابق پاکستان میں غیر ملکی فنڈنگ سے چلنے والے امدادی گروپوں کو شبے کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور پاکستانی فوج کے بہت سے ارکان یہ سمجھتے ہیں کہ مغربی ممالک اس طرح کے گروپوں کو اکثر جاسوسی کے لیے بطور پردہ استعمال کرتے ہیں۔ جوہری طاقت رکھنے والے ملک پاکستان میں غیرملکی سفارت کاروں اور صحافیوں کو بھی اکثر سخت پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
حالیہ چند ماہ کے دوران کم از کم 18 بین الاقوامی امدادی تنظیمیوں کو جن میں سے اکثریت انسانی حقوق کے معاملات پر کام کر رہی تھیں، پاکستان چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔
ان ممالک نے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کو ایک خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پابندی کا نشانہ بننے والے ان گروپوں کو اس بات کی مناسب وجوہات نہیں بتائی کہ حکومت نے انہیں ملک سے چلے جانے کا کیوں کہا ہے، مزید یہ کہ رجسٹریشن کے طریقہ کار میں ’’شفافیت میں کمی‘‘ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کی طرف سے دیکھے گئے اس خط میں ان ممالک نے مزید لکھا ہے، ’’ہم حالیہ پیشرفت کے حوالے سے شدید تحفظات کے اظہار کے لیے یہ خط لکھ رہے ہیں۔‘‘ روئٹرز کے مطابق چار سفارت کاروں نے اس کے درست ہونے کی تصدیق کی ہے۔
اس خط میں مزید لکھا گیا ہے، ’’سول سوسائٹی پر پابندی سے پاکستان کی بین الاقوامی ساکھ اور انسانی ترقی کے حوالے سے بطور پارٹنر بھروسے کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے اور اس سے بین الاقوامی امداد دینے والے اداروں اور کاروباری برادری کے اعتماد کو ٹھیس پہنچے گا۔
روئٹرز کے مطابق پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے دفتر یا پاکستانی وزارت خارجہ کی طرف سے فوری طور پر اس خط کے حوالے سے کوئی رد عمل نہیں دیا گیا۔ اس خط پر امریکا، کینیڈا، جاپان، آسٹریلیا، ناروے، سوئٹزرلینڈ کے سفارت کاروں نے دستخط کیے ہیں۔ یورپی یونین کے سفارت کار نے برطانیہ اور فرانس سمیت یورپی یونین کے 17 دیگر ایسے ممالک کی طرف سے اس خط پر دستخط کیے جن کے مشن پاکستان میں موجود ہیں۔ سفارتی ذرائع کے مطابق اسی طرح کا ایک خط ستمبر میں پاکستانی وزارت خارجہ کو بھی لکھا گیا تھا۔
پاکستان نے گزشتہ برس کے آخر میں کُل 27 غیر سرکاری امدادی تنظیموں کو پاکستان چھوڑنے کے احکامات جاری کیے تھے۔ تاہم ان میں سے 18 امدادی تنظیمیں ملک چھوڑنے کے احکامات کے خلاف اپیل کر رہی ہیں۔
ا ب ا / ع ب (روئٹرز)