پاکستان: طالب علم اور اس کے استاد پر توہینِ مذہب کا الزام
14 اکتوبر 2016پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع قصور میں سینیئر پولیس افسر عارف رشید نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ علاقے کے رہائشیوں نے مدرسے کے ایک طالب علم کو قرآنی صفحات جلاتے ہوئے دیکھا۔ جب اُس سے پوچھا گیا کہ وہ ایسا کیوں کر رہا تھا تو اُس نےجواب دیا کہ اس کے استاد نے کہا تھا کہ قرآن کے پرانے صفحات کو تلف کرنے کا یہ درست طریقہ ہے۔
دینی علماء قرآن کے ٹیکسٹ کو دو طریقوں سے تلف کرنا درست قرار دیتے ہیں۔ اوّل طریقہ یہ ہے کہ قرآن کو کپڑے میں بند کر کے زمین میں دفن کر دیا جائے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اسے بہتے پانی کے سپرد کر دیا جائے تاکہ الفاظ کی سیاہ مکمل طور پر مٹ جائے۔ پاکستانی قوانین کے تحت قرآن کی کسی قسم کی بے حرمتی پر عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ سن دو ہزار پندرہ میں صوبہ پنجاب میں ایک کارخانے کو مشتعل ہجوم نے آگ لگا دی تھی۔ فیکٹری کے ملازمین میں سے ایک پر الزام تھا کہ اُس نے بوائلر میں قرآن کے صفحات جلائے تھے۔
مقامی پولیس افسر رشید کا کہنا ہے کہ مبینہ طور پر قرآن کی بے حرمتی کے مرتکب ہونے والے طالب علم اور استاد دونوں پر قانون کی دفع دو سو پچانوے بی کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے جس کے تحت بے حرمتی کی سزا عمر قید ہے۔ یہ کیس ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب صرف ایک دن قبل پاکستانی سپریم کورٹ نے توہین مذہب کے جرم میں سزا پانے والی مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی جانب سے دائر کردہ اپیل پر اپنی سماعت مؤخر کی ہے۔
اپیل کی سماعت کے لیے بنائے گئے تین رکنی بینچ میں شامل جج اقبال حمید الرحمان نے مقدمے کی کارروائی میں اپنے شریک ہونے سے معذوری ظاہر کی تھی۔ آسیہ بی بی کی اپیل کی سماعت کے لیے فی الحال سپریم کورٹ نے کسی نئے بینچ کے قیام کا اعلان نہیں کیا۔ آسیہ بی بی پر سن 2010 میں توہین مذہب کا الزام عائد کیا گیا تھا جس کے بعد اسے عدالت نے سزائے موت سنائی تھی۔