1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: صدارتی امیدواروں کا تعارف

تنویر شہزاد، لاہور24 جولائی 2013

پاکستان میں نئے صدر کے لیے میدان سج چکا ہے۔ مبصرین کے مطابق اصل مقابلہ پاکستان مسلم لیگ نون کے امیدوار ممنون حسین، پاکستان پیپلز پارٹی کے میاں رضا ربانی اور پاکستان تحریک انصاف کے وجیہ الدین احمد میں ہونے کا امکان ہے۔

https://p.dw.com/p/19Dgz
ممنون حسین، مسلم لیگ نون کے صدارتی امیدوار
ممنون حسین، مسلم لیگ نون کے صدارتی امیدوارتصویر: Reuters

صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے یوں تو کئی امیدوار سامنے آ چکے ہیں لیکن ان تینوں کو اہم ترین قرار دیا جا رہا ہے۔

پاکستان کے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے والے تینوں بڑے امیدواروں کا تعلق صوبہ سندھ سے ہے۔ ان میں سے پہلا امیدوار عملی وکالت کرنے والا وکیل، دوسرا ریٹائرڈ جج اور تیسرا تجارتی پس منظر کا حامل ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نون نے کپڑے کی تجارت سے وابستہ ایک تاجر ممنون حسین کو اپنا امیدوار بنایا ہے جو کہ کراچی چیمبرز آف کامرس کے صدر اور سندھ کے گورنر بھی رہے ہیں۔

اردو اسپیکنگ گھرانے سے تعلق رکھنے والے ممنون حسین نے انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کراچی سے کاروباری انتظامیہ کی تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔ وہ آج کل پاکستان مسلم لیگ کے سینئر نائب صدر ہیں۔ وہ کچھ عرصہ وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر کے طور پر بھی کام کرتے رہے ہیں۔ ان کا شمار ایسے مسلم لیگی رہنماؤں میں ہوتا ہے، جنہوں نے مشرف دور میں نواز شریف کی جلا وطنی کے بعد ثابت قدمی کے ساتھ پارٹی اور شریف فیملی کا ساتھ دیا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے صدارتی امیدوار میاں رضا ربانی
پاکستان پیپلز پارٹی کے صدارتی امیدوار میاں رضا ربانیتصویر: Getty Images/AFP

دھیمے مزاج کے ممنون حسین ایم کیو ایم کے حوالے سے کوئی ہمدردانہ جذبات نہیں رکھتے۔ فیس بک پر ان کے دوستوں کی تعداد نو سو سے زائد ہے اور ان کا فیس بک پیج ایم کیو ایم کے خلاف کافی مواد لیے ہوئے ہے۔

صدارتی انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے سینیٹر میاں رضا ربانی حصہ لے رہے ہیں، جو اس جماعت کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل ہیں۔ وہ سینیٹ کی متعدد کمیٹیوں کے رکن ہونے کے ساتھ ساتھ پارلیمان کی قومی سلامتی اور آئینی اصلاحات کی کمیٹی کے سربراہ بھی ہیں۔ رضا ربانی سینیٹ میں قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کے طور پر خدمات سرانجام دینے کے علاوہ قانون ، انصاف اور بین الصوبائی رابطوں کے بھی وفاقی وزیر رہے ہیں۔ انہیں 1973ء کے آئین کوبڑی حد تک بحال کرنے والی مشہور زمانہ اٹھارویں ترمیم کا مصنف بھی کہا جاتا ہے۔ وہ پارلیمان کی اس کمیٹی کے سربراہ تھے، جس نے یہ ترمیم تیار کی تھی۔

پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے اس پارٹی کے ایک مرکزی رہنما جسٹس (ر) وجیہ الدین احمد صدارتی انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں۔ وہ سپریم کورٹ کے سینئر جج اور سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہے ہیں۔ انہوں نے جنرل پرویز مشرف کے دور میں پی سی او کے تحت حلف اٹھانے کی بجائے سپریم کورٹ کے جج کے عہدے سے استعفٰی دے دیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اگر وہ اس وقت مستعفی نہ ہوتے تو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بنتے۔

ان کے پاس سندھ ہائی کورٹ میں وکالت کرنے، ایس ایم لاء کالج میں پڑھانے اور سندھ ہائی کورٹ بار کے منتخب صدر کے طور پر فرائض ادا کرنے کا تجربہ بھی ہے۔ وہ تحریک انصاف کا آئین بنانے والی کمیٹی کے بھی سربراہ تھے۔

پاکستان تحریک انصاف نے اپنے ایک مرکزی رہنما جسٹس (ر) وجیہ الدین احمد کو صدارتی امیدوار نامزد کیا ہے
پاکستان تحریک انصاف نے اپنے ایک مرکزی رہنما جسٹس (ر) وجیہ الدین احمد کو صدارتی امیدوار نامزد کیا ہےتصویر: Getty Images

روزنامہ دنیا کے ایڈیٹر اور ممتاز کالم نگار نذیر ناجی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتوں کا اپنے اپنے صدارتی امیدوار کھڑے کرنا یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ یہ جماعتیں پارلیمنٹ میں اپنی طاقت کو ٹیسٹ کر کے یقینی بنانا چاہتی ہیں۔ ان کے بقول پاکستان میں حکومتی امیدوار کے ہارنے کی روایت موجود نہیں ہے البتہ اپوزیشن کے کمزور امیدواروں کا رجحان حکومت کی طرف ہو سکتا ہے۔ ان کے بقول پاکستان کا آئندہ صدر وزیر اعظم کا اعزازی مہمان ہو گا اور اختیارات کی عدم موجودگی میں اس کی حیثیت علامتی ہی ہو گی۔

ممتاز براڈکاسٹر اور سینئر صحافی مرتضٰی سولنگی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان کے منتخب ایوان ایک نئے چوہدری فضل الہی کو منتخب کرنے جا رہے ہیں۔ ان کی رائے میں اصل مقابلہ ممنون حسین اور میاں رضا ربانی میں ہو گا۔ اگرچہ سیاسی جدوجہد کے اعتبار سے رضا ربانی ممنون حسین پر بہت برتری رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کے جیتنے کے امکانات نہیں ہیں کیونکہ اکثریتی پارٹی مسلم لیگ نون کو فاٹا اور بلوچستان کے اتحادی ساتھیوں کے علاوہ کشمیر کمیٹی اور وزارتوں کے خواہاں مولانا فضل الرحمن کی حمایت بھی ملنے کی توقع ہے۔ اس طرح عشق ممنوع کے بعد اب پاکستانی قوم بڑی حد تک صدر ممنوں کو دیکھنے کے لیے تیار کھڑی ہے۔