1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان سے گرفتار شدہ گوانتانامو کا قیدی سعودی عرب منتقل

9 مارچ 2023

سعودی انجینئر غسّان الشربی کو دو عشرے قبل پاکستانی شہر فیصل آباد سے گرفتار کیا گیا تھا۔ ان پر امریکہ پر نائن الیون کے دہشت گردانہ حملوں میں القاعدہ کا ساتھ دینے کا شبہ تھا لیکن فرد جرم کبھی عائد نہیں کی گئی تھی۔

https://p.dw.com/p/4OR8T
Militärgefängnis I Guantanamo
تصویر: Mark Wilson/Getty Images

امریکی فوجی حکام نے بدھ کے روز اعلان کیا کہ اس تجزیے کے بعد کہ فیصل آباد سے گرفتار شدہ القاعدہ کے مشتبہ کارکن اور سعودی انجینئر غسّان الشربی اب امریکی قومی سلامتی کے لیے کوئی خطرہ نہیں رہے، انہیں خلیج گوانتانامو کے حراستی کیمپ سے رہا کر کے سعودی عرب بھیج دیا گیا ہے۔

غسّان الشربی کو دو دہائی قبل پاکستان کے شہر فیصل آباد سے گرفتار کیا گیا تھا۔

ان پر 11ستمبر 2001 کے روز نیو یارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے جڑواں میناروں پر القاعدہ کے حملوں میں اس نیٹ ورک کا ساتھ دینے کا شبہ تھا لیکن ان پر کبھی کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا تھا۔

امریکی حکام کے مطابق خلیج گوانتانامو میں کیوبا کے جزیرے پر واقع بدنام زمانہ حراستی کیمپ سے غسّان الشربی کو اس لیے رہا کر دیا گیا کیونکہ اب سمجھا یہ جاتا ہے کہ وہ امریکہ کی قومی سلامتی کے لیے کوئی خطرہ نہیں رہے، لہٰذا انہیں مزید حراست میں رکھنا ضروری نہیں ہے۔

ربانی برادران گوانتانامو بے جیل سے رہا، جلد پاکستان منتقلی

امریکی محکمہ دفاع نے ایک بیان میں کہا کہ الشربی کی وطن واپسی ''جامع حفاظتی اقدامات سے مشروط ہے، جن میں نگرانی، سفری پابندیاں اور معلومات کا مسلسل تبادلہ شامل بھی ہیں۔‘‘

غسّان الشربی کو دو دہائی قبل پاکستان کے شہر فیصل آباد سے گرفتار کیا گیا تھا
غسّان الشربی کو دو دہائی قبل پاکستان کے شہر فیصل آباد سے گرفتار کیا گیا تھاتصویر: John Moore/Getty Images

کوئی فرد جرم نہیں

الشربی کا نائن الیون کے حملوں سے تعلق ایریزونا یونیورسٹی میں ایروناٹیکل انجینئرنگ کی تعلیم اور نائن الیون حملوں کی سازش میں ملوث القاعدہ کے دو ہائی جیکروں کے ساتھ فلائٹ اسکول میں ان کی شرکت سے بتایا گیا تھا۔

نائن الیون حملوں کے بعد الشربی بم بنانے کی تربیت حاصل کرنے کے لیے فرار ہو کر پاکستان چلے گئے تھے اور ان پر القاعدہ کے لیے بم بنانے کا شبہ ظاہر کیا گیا تھا۔

الشربی کو سن 2002میں پاکستان سے گرفتار کیا گیا تھا اور وہاں دوران حراست انہیں مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا تھا، جس کے بعد بالآخر انہیں گوانتانامو کیمپ بھیج دیا گیا تھا۔

حالانکہ امریکی فوج نے ان پر کئی دیگر الزامات عائد کرنے پر غور کیا لیکن بالآخر سن 2008میں ان پر کوئی فرد جرم عائد نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

امریکی فوجی حکام کی پاکستانی نژاد قیدی پر سی آئی کے مبینہ تشدد کی مذمت

کوئی الزام عائد نہ ہونے کے باوجود الشربی کو خلیج گوانتانامو کے امریکی بحری اڈے میں واقع جیل میں 'دشمن  جنگجو‘ کے طور پر نظر بند رکھا گیا تھا۔

غسّان الشربی کی رہائی کے ساتھ ہی گوانتانامو جیل میں باقی ماندہ قیدیوں کی تعداد اب 31 رہ گئی ہے
غسّان الشربی کی رہائی کے ساتھ ہی گوانتانامو جیل میں باقی ماندہ قیدیوں کی تعداد اب 31 رہ گئی ہےتصویر: DOD US Navy/picture-alliance/dpa

گوانتا نامو کیمپ میں قیدیوں کی تعداد میں کمی

خلیج گوانتانامو کی فوجی جیل سے الشربی کی رہائی ان قیدیوں کی رہائی کے لیے جاری کوششوں کا حصہ ہے، جنہیں اب کسی مقدمے کا سامنا نہیں ہے یا جو اپنی سزائیں پوری کر چکے ہیں۔

امریکی فوجی جائزہ بورڈ نے سخت حفاظتی اقدامات پر عمل درآمد کے لیے الشربی کو سعودی عرب کی تحویل میں دینے کی سفارش کی تھی۔

نائن الیون حملوں کے ہائی جیکروں میں سے بیشتر کا تعلق سعودی عرب سے تھا۔ سعودی عرب شدت پسندوں کو حراست میں لینے اور ان کی آبادکاری کے لیے ایک عرصے سے کام کر رہا ہے۔

صدر بائیڈن گوانتانامو بے جیل بند کرنے کا اپنا وعدہ پورا کریں، ایمنسٹی انٹرنیشنل

غسّان الشربی کی رہائی کے ساتھ ہی گوانتانامو جیل میں باقی ماندہ قیدیوں کی تعداد اب 31 رہ گئی ہے، جو ماضی میں کبھی 800 کے قریب بنتی تھی۔

ج ا / م م (اے پی، اے ایف پی، ڈی پی اے)