1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: سانحہ کوئٹہ کے خلاف تیسرے روز بھی ملک بھر میں احتجاج جاری

18 فروری 2013

ہفتے کے روز کوئٹہ بم دھماکے میں ہلاک ہونے والے افراد کی تدفین پیر کے روز بھی نہیں کی گئی۔ شیعہ مسلک کی تنظیموں کے زیر اہتمام سارے ملک کے بڑے شہروں سمیت دوسرے اہم قصبوں اور شہروں میں دھرنوں اور مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔

https://p.dw.com/p/17gMZ
تصویر: BANARAS KHAN/AFP/Getty Images

اسلام آباد میں مظاہرین نے وفاقی دالرلحکومت کو دیگر شہروں سے ملانے والی ایک  مرکزی شاہراہ پر فیض آباد کے مقام پر دھرنا دے رکھا ہے۔ اس دھرنے کے سبب ٹریفک کی بندش کی وجہ سے عام شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی دوران کوئٹہ سے موصولہ اطلاعات کے مطابق شہر کے دو مقامات علمدار  روڈ اور ہزارہ ٹاؤن میں احتجاجی دھرنے جاری ہیں۔ اس کے علاوہ شیعہ علماء کونسل کی اپیل پر کراچی شٹرڈاؤن ہڑتال کی گئی جبکہ شہر میں بیشتر تعلیمی ادارے بھی بند رہے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ کوئٹہ کو فوج کے حوالے کیے جانے کا مطالبہ پورا ہونے تک حتجاج جاری رکھیں گے اور نہ ہی میتوں کی تدفین ہوگی۔

Trauer und Protest nach Bombenanschlag in Quetta Pakistan
شیعہ مسلک کی تنظیموں کے زیر اہتمام سارے ملک میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔تصویر: Reuters

ادھر وفاقی حکومت نے کوئٹہ بم دھماکے کو انٹیلی جنس کی  ناکامی قرار دیا ہے۔ اسلام آباد میں ایک تقریب میں شرکت کے بعد سینئر وفاقی وزیر سید خورشید شاہ نے ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’سچی بات تو یہ ہے کہ ہماری انٹیلی جنس کی اس میں ناکامی ہے۔ جو انٹیلی جنس کا نیٹ ورک ہے اس کو مضبوط بنانا چاہیے ۔ ان کو حقیقی طور پر اس طرف آنا چاہیے کہ دہشتگردوں کی پناہ گاہیں کونسی ہیں کہاں پر ہیں، آج کل اس دنیا میں کوئی چیز چھپی نہیں رہتی کہ کون کہاں بیٹھا ہوا ہے۔ آسمان سے بھی ہم دیکھ سکتے ہیں‘‘۔

ہفتے کے روز بلوچستان کے دارالحکومت  میں ہونیوالے اس بم دھماکے میں پولیس حکام کے مطابق 8 سو سے ایک ہزار کلو گرام تک بارود استعمال کیا گیا۔سیکرٹری داخلہ بلوچستان اکبر درانی کے مطابق اس بم دھماکے میں  ہلاک ہونیوالوں کی تعداد 79 ہو گئی ہے۔  ان کے مطابق  ہلاک ہونیوالوں میں 33 افغان مہاجرین بھی شامل ہیں جبکہ 150 سے زائد زخمیوں میں میں بھی 65 افغان مہاجرین شامل ہیں۔مرنے والوں میں زیادہ تعداد شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے ہزارہ قبیلے کے افراد کی ہے۔ شیعہ مسلک کی تنظیم وحدت المسلمین کے مطابق کوئٹہ بم دھماکے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک سو د س تک پہنچ گئی ہے۔

 گورنربلوچستان ذوالفقار مگسی نے ان دھماکوں کو سیکورٹی اداروں کی ناکامی قرار دیا ہے۔ دوسری جانب انسانی حقوق کے کارکنوں ، سول سوسائٹی کے نمائندوں اور وکلاء تنظیموں نے بھی کوئٹہ بم دھماکے کی شدید مذمت کی ہے۔ انسانی حقوق کی کارکن اور سپریم کورٹ بار کی سابق صدر عاصمہ جہانگیر  کا کہنا ہے کہ کوئٹہ فوج کے حوالے کرنا مسئلے کا حل نہیں کیونکہ ایف سی کی شکل میں فوج پہلے ہی وہاں موجود ہے۔ ڈی ڈبلیُو سے گفتگو کرتے ہوئے خفیہ ایجنسیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے عاصمہ جہانگیر نے کہا ’’ انٹیلیجنس ایجنسیوں کو دیکھ لیں کہ جن لوگوں کے وہ پیچھے پڑے ہوئے ہیں ان کے تو کان میں جو بال ہیں ان کے رنگوں کا بھی ان کو پتہ ہے۔ مگر یہ اتنے سالوں سے نہیں پتہ کرا سکے کہ یہ کون سے گروپ  ہیں اور کہاں سے آتے ہیں ، کہاں غائب ہو جاتے ہیں، تو پھر ان کی کیا ضرورت ہے کہ ہم ان پر اتنے پیسے خرچ کر رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں ہر کام انٹیلی جنس ایجنسیوں سے پوچھ کر ہوتا ہے تو اگر ان کی یہ انٹیلی جنس ہے تو معذرت کے ساتھ پھر ہمارا ملک کس طرف جائے گا؟‘‘

اس قبل دس جنوری کو کوئٹہ میں ہونیوالے دو بم دھماکوں میں ایک سو افراد ہلاک ہوگئے تھے جن میں اکثریت ہزارہ برادری ہی کی تھی۔ ان دھماکوں کے بعد ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد نے میتوں کو دفنانے سے انکار کرتے ہوئے کئی روز تک دھرنا دیا تھا۔ اس دھرنے کا اختتام بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کے خاتمے اور گورنر راج نافز کرنے پر کیا گیا تھا۔

رپورٹ: شکور رحیم اسلام آباد

ادارت:  عابد حسین