1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پی ٹی آئی کے دس ارکان پارلیمان کی ضمانت منظور

16 ستمبر 2024

پاکستان کی انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی پارٹی کے 10 ارکان پارلیمان کی ضمانت منظور کر لی ہے۔

https://p.dw.com/p/4keoO
عمران خان کی تصاویر پر مبنی پوسٹرز
تصویر: Rizwan Tabassum/AFP/Getty Images

پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں آٹھ ستمبر کو ہونے والےتحریک انصاف کے جلسے کے بعد اس جماعت کے چیئرمین گوہر علی خان سمیت دیگر قیادت کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اس بات پر تنازعہ موجود ہے کہ اس جماعت کے ارکان پارلیمان کو پارلیمان کی عمارت کے اندر سے گرفتار کیا گیا۔

پی ٹی آئی اور فوج آمنے سامنے، ملکی استحکام خطرے میں؟

پی ٹی آئی اراکین پارلیمنٹ کی گرفتاریوں کی تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل

منگل 10 ستمبر کو اس جماعت کے گرفتار شدہ کم از کم 30 افراد کے خلاف ریمانڈ حاصل کیا گیا تھا، جن میں 10 ارکان پارلیمان بھی شامل تھے۔ ان افراد کے خلاف اسلام آباد میں احتجاج کے حوالے سے بنائے گئے نئے قانون کی خلاف ورزی اور انسداد دہشت گردی قانون کی خلاف ورزی کی دفعات عائد کی گئی تھیں۔

حریک انصاف کے چیئرمین گوہر علی خان اور عمر ایوب
حریک انصاف کے جلسے کے بعد اس جماعت کے چیئرمین گوہر علی خان سمیت دیگر قیادت کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔تصویر: AAMIR QURESHI/AFP via Getty Image

پاکستان تحریک انصاف کو گزشتہ برس اگست میں جماعت کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم عمران خان کو جیل بھیجے جانے کے بعد سے سخت کریک ڈاؤن کا سامنا ہے۔ عمران خان کا دعویٰ ہے کہ ان کے خلاف سیاسی بنیاد پر کیسز بنا کر انہیں سزا سنائی گئی۔

مئی 2023ء میں جب عمران خان کو بدعنوانی کے الزامات کے تحت پہلی مرتبہ گرفتار کیا گیا تو ملک بھر میں ان کے حامیوں نے احتجاج کیا اور اس دوران فوجی تنصیبات وغیرہ پر پرتشدد حملے بھی کیے گئے، جس کے بعد فوج کی طرف سے اس جماعت کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کا سلسلہ شروع ہوا۔

اسلام آباد میں آٹھ ستمبر کو ہونے والے تحریک انصاف کے جلسے کا منظر
پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں آٹھ ستمبر کو ہونے والے تحریک انصاف کے جلسے میں بڑی تعداد میں اس کے حامیوں نے شرکت کی۔تصویر: Salahuddin/REUTERS

تاہم یہ کریک ڈاؤن عمران خان اور ان کی جماعت کی مقبولیت کو کم کرنے میں ناکام رہا اور فروری 2024ء میں جب عام انتخابات منعقد ہوئے تو ان کی جماعت سے تعلق رکھنے والے ارکان نے بہت سی نشستوں پر کامیابی حاصل کی، حالانکہ انتخابات سے کچھ وقت قبل اس جماعت سے اس کا انتخابی نشان 'بَلا‘ واپس لے لیا گیا اور اسی سبب اس جماعت کے ارکان نے مختلف انتخابی نشانات کے تحت الیکشن میں حصہ لیا۔ ان انتخابات کے حوالے سے ملکی الیکشن کمیشن پر بدعنوانی اور ملکی فوج کی انتخابی عمل میں دخل اندازی کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ایک پینل کے ماہرین نے رواں برس یہ قرار دیا کہ عمران خان کی حراست کی ''کوئی قانونی بنیاد نہیں تھی اور اس کا مقصد بظاہر انہیں انتخابات میں حصہ لینے سے روکنا تھا۔‘‘

عمران خان کے خلاف قائم کیے گئے متعدد مقدمات کا فیصلہ ان کے حق میں آ چکا ہے۔

قوم 'قیدی نمبر 804' کے ساتھ کھڑی ہے، بیرسٹر گوہر خان

 

ا ب ا/ع آ (اے ایف پی، مقامی میڈیا)