1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بگڑتی معیشت کا شاخسانہ، سفید پوش طبقہ گداگری پر مجبور

عاصمہ کنڈی
26 فروری 2023

گداگروں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہو رہا ہے اور اگر ان کے خدوخال اور مانگنے کے طریقوں پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ کوئی پیشہ ور بھکاری نہیں بلکہ ان میں کثیر تعداد مجبور سفید پوش بزرگ خواتین و حضرات کی ہوتی ہے۔

https://p.dw.com/p/4Ntjd
گداگری فائل فوٹو
فائل فوٹوتصویر: picture alliance / blickwinkel/W. G. Allgoewer

اسلام آباد میں سرخ، پیلے، ہرے ٹریفک کے اشارے ہوں یا آٹا، چینی،اور دالیں بیچتے کریانہ اسٹور ہوں، بس نگاہ اٹھا کر دیکھنے کی ضرورت ہے، یوں لگتا ہے جیسے ہر طرف بھکاریوں کا سیلاب سا امڈ آیا ہو جن میں زیادہ تر سفید پوش معمر افراد اپنا منہ ڈھانپے مہنگائی  میں اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے ہاتھ پھیلائے اور اپنی شناخت دنیا سے چھپاتے دکھائی دیتے ہیں۔

ایسے ہی ایک کریانہ اسٹور جو کہ کراچی کمپنی میں واقع ہے، وہیں فائزہ بھی سامان سے لدی ٹرالی گاڑی کی طرف دھکیل رہی تھیں جب چھ  سے آٹھ لوگوں نے باری باری اس سے مدد کے لیے ہاتھ آگے پھیلایا تو ایک خوف نے اسے اپنے حصار میں لے لیا۔ گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھتے ہی وہ اس خوف سے کسی حد تک خود کو آزاد محسوس کر پائیں۔

پاکستان میں مہنگائی نے ’دو وقت کی روٹی کمانا مشکل کر دی‘

شوہر کے وجہ پوچھنے پر انہوں نے کہا، ''جس طرح یہ مانگنے والے سامان کی ٹرالی کو دیکھ رہے تھے مجھے یوں لگا کہ ہم پر حملہ کر کہ سامان نہ چھین لیں۔‘‘ حالانکہ فائزہ اسٹور جانے سے پہلے حسب توفیق دو سے تین بزرگ افراد کی مالی مدد کر چکی تھیں مگر پھر بھی سامان چھن جانے کے خوف کے ساتھ ساتھ انہیں اس بات کا بھی خوف تھا کہ کہیں اللہ اس سے ناراض نہ ہو جائے کہ وہ ان کی کچھ داد رسی نہ کرپائیں۔

'پیشہ ور بھکاری نہیں، مگر بچوں کو بھوکا نہیں دیکھ سکتا'

اسی سٹور کے باہر سائیڈ پر ایک سفید ریش بزرگ بھی ہاتھ میں چند رومال تھامے، اپنے چہرے کو ماسک اور سر کو سفید اور گلابی رنگ کے چیک والے رومال سے ڈھانپے کسی مہربان نظر کے منتظر تھے جو ان کی طرف مدد کے لیے بڑھے اور ان کو خود ہاتھ پھیلانے آگے نہ جانا پڑے۔

ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے متین بابا (فرضی نام) کا کہنا تھا کہ وہ بری امام (اسلام آباد کے پہلو میں واقع ایک چھوٹا سا گاؤں) میں رہتے ہیں۔ ان کے چھ بچے ہیں، جن میں چار شادی شدہ ہیں اور دو بیٹیاں ابھی گھر میں ہیں۔ "بیٹے اچھے ہیں مگر گزر بسر نہیں ہو رہا مہنگائی بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ میں کوئی پیشہ ور بھکاری نہیں ہوں مگر اپنے بچوں کو بھوکا نہیں دیکھ سکتا،" یہ کہتے ہوئے اُن کے گلے میں پھنسے آنسوؤں نے اُن کی آواز کو دبا دیا اور چہرے پہ لگا ماسک آنسوؤں سے بھیگ گیا۔

فائل فوٹو: ایتھوپیا میں گداگری
فائل فوٹو: تصویر: Marco Longari/AFP

بڑھتی ہوئی مہنگائی کی گونج  کو ہم ہر طرف سن رہے ہیں مگر اب اس کے اثرات غریب طبقے کی زندگیوں پر بھی دکھائی دینے لگے ہیں۔ مانگنے والوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اورجب ان کے خدوخال اور مانگنے کے طریقوں پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی پیشہ ور یا روایتی بھکاری نہیں ہیں۔

ان لوگوں میں کثیر تعداد بزرگ خواتین و حضرات کی ہے اور یہ لوگ اپنا چہرہ ماسک یا دوپٹے سے چھپا کر رکھتے ہیں تاکہ کہیں کوئی جاننے والا نہ مل جائے۔ کسی کے ہاتھ میں دو چار رومال، پین، مسواک یا نمکو کے پیکٹ دکھائی دیتے ہیں جس کو بیچنے کے بہانے وہ مدد کا سوال کرتے ہیں۔

متین بابا نے بھی یہی بتایا تھا کہ وہ گھر سے رومال بیچنے کا کہہ کر نکلتے ہیں اور کسی کو بھی ان کے مانگنے کے بارے میں علم نہیں ہے۔

مہنگائی اپنے عروج پر

پاکستان میں ہر چڑھتے دن کے ساتھ  پیٹرولیم مصنوعات  اور کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ مہنگائی کی شرح  تیس فیصد تک پہنچ چکی ہے جس نے متوسط اور غریب طبقے کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ہر محفل مہنگائی کے تزکرے سے شروع ہو کر اسی پر ختم ہوتی ہے اور اوپر سے بجلی اور گیس کے بھاری بلوں نے رہی سہی کسر پوری کر دی ہے۔

اسی بارے میں جب ماہر معاشیات محمد ناصر، جو کہ انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) کراچی کے اکنامکس ڈیپارٹمنٹ کے چیئرپرسن ہیں، سے بات کی گئی تو انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ مہنگائی کی شرح تو چھ تا ستائیس فیصد ہے مگر ہمیں گہرائی میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ "فوڈ انفلیشن (کھانے پینے کی اشیا کی مہنگائی) جو براہ راست غریب اور متوسط طبقے کو متاثر کرتی ہے وہ اس وقت پاکستان میں تاریخ کی بلند ترین سطح تقریباﹰ چالیس فیصد تک جا پہنچی ہے۔ غریب اپنی آمدن کا پچاس فیصد حصہ اپنے کھانے پینے پر لگاتا ہے جو کہ اس دور میں ایک سو فیصد تک بڑھ چکا ہے۔ اب وہ باقی اشیا تعلیم اور صحت جیسی ضرورتوں کو نظر انداز کر کہ اپنا پیٹ پالتا ہے۔"

بے روزگاری میں اضافہ

ماہر معاشیات ناصر کا کہنا تھا کہ ایک طرف تو مہنگائی اپنے عروج پر ہے دوسری طرف پاکستان کے ابتر معاشی حالات  کی وجہ سے بے روزگاری بھی بہت بڑھ چکی ہے۔ جو ایک بار پھر غریبوں کو ہی اپنی لپیٹ میں لیتی ہے۔ پاکستان آئی ایم ایف کی کڑی شرائط مان کر انکم جنریشن کے لیے نئے نئے ٹیکس لگا رہا ہے جو کہ مہنگائی کی آگ میں ایندھن کا کام کر رہے ہیں مگر دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط ماننے کے علاوہ اس کے پاس کوئی چارہ نہیں اور ڈیفالٹ کا خطرہ الگ سر پر منڈلا رہا ہے۔

پاکستان: عوام کے لیے زندگی کی ضروریات پوری کرنا دو بھر

انہوں نے ایک اور اہم نقطے کی طرف بھی اشارہ کیا کہ یہ معاشی حالات اور بڑھتی مہنگائی متوسط طبقے کو بھی خط غربت سے نیچے دھکیلتے ہوئے امیر اور غریب دو طبقوں میں تقسیم کر رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس سال مہنگائی کی شرح میں مزید اضافہ ہو گا اور ہمیں ہر طرف لوگ اپنی ضرورتوں کے لیے ہاتھ پھلائے نظر آئیں گے۔

سماجی بہبود کے پروگرامز کی ضرورت

حالیہ حکومت نے عمران خان کی حکومت میں غریبوں کے لیے قائم کیے گئے کھانے پینے کی اشیا کے اسٹالز بھی تجاوزات کا لیبل لگا کر رات کے اندھیرے میں گرا دیے۔ اس بات کا حوالہ دیتے ہوئے ماہر معاشیات کا کہنا تھا کہ حکومت کو اس معاشی ایمرجنسی صورتحال میں سخت انتظامی امور پر نرمی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ "اب یہ لوگ جو محنت کر کہ اپنے خاندان کا پیٹ پال رہے تھے دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہو جائیں گے۔"

انہوں نے اس صورتحال میں غریبوں کو ریلیف فراہم کرنے کے بارے میں کہا کہ حکومت کو بینظیر انکم سپورٹ  جیسے مزید سماجی بہبود کے پروگرامز شروع کرنے چاہییں اور جب تک اس معاشی ایمرجنسی کی صورتحال سے پاکستان نکل نہیں آتا، عارضی بنیادوں پر متوسط طبقے سے مزید حقدار افراد کو ان پروگرامز میں شامل کرنا چاہیے تا کہ وہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے پر مجبور نہ ہوں۔

مہنگائی سے نمٹنے کے ليے لوگوں کی مالی مدد، صحيح يا غلط؟

Asma Kundi
عاصمہ کنڈی اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی عاصمہ کنڈی نے ابلاغیات کی تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔
اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید