پاکستان اور بھارت: SCO بلاک کی رکنیت کے لیے پیشرفت
24 جون 2016روسی صدر پوٹن نے یہ باتیں ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند میں کہیں، جہاں شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن (SCO) کی ایک دو روزہ سربراہ کانفرنس منعقد ہو رہی ہے۔
روسی حکومت کی ویب سائٹ کے مطابق پاکستان اور بھارت کی جانب سے اس تنظیم میں شمولیت سے متعلق ایک یادداشت پر دستخطوں کے بعد پوٹن نے کہا: ’’ہم توقع کر رہے ہیں کہ ہمارے یہ ساتھی ممالک جتنی جلد ممکن ہو سکا، اس تنظیم میں شامل ہو سکیں گے، ممکنہ طور پر قازقستان میں آئندہ برس ہونے والے ہمارے اگلے ہی اجلاس میں۔‘‘
پوٹن نے کہا کہ اب پاکستان اور بھارت کو بھی اس تنظیم کے اُس ڈھانچے کا حصہ بنانے کے حوالے سے قریبی اشتراکِ عمل کی ضرورت ہے، جس میں رکن ممالک کے وُزرائے خارجہ اور سربراہانِ مملکت و حکومت کے مابین باقاعدگی کے ساتھ ملاقاتیں عمل میں آتی رہتی ہیں۔
اس سربراہ کانفرنس میں پاکستان کی جانب سے سربراہِ مملکت ممنون حسین جبکہ بھارت کی جانب سے وزیر اعظم نریندر مودی شریک ہیں۔
مودی نے اس تنظیم میں شمولیت کے لیے بھارتی کوششوں کے سلسلے میں ’تعمیری کردار‘ کے لیے پوٹن کا شکریہ ادا کیا۔ اس سے پہلے ماسکو حکومت کی ویب سائٹ پر پوٹن کے حوالے سے یہ کہا گیا تھا کہ شنگھائی تعاون تنظیم میں بھارت کی رکنیت سے ماسکو اور نئی دہلی حکومتوں کے مابین اور زیادہ قریبی تعاون کی راہیں کھل جائیں گی۔
پوٹن نے اس سمٹ سے پہلے چینی سرکاری نیوز ایجنسی شنہوا سے گفتگو میں کہا تھا کہ پاکستان اور بھارت کی شمولیت سے یہ تنظیم ’عالمی اور علاقائی سطح پر اور زیادہ اہمیت‘ اختیار کر جائے گی۔
اُزبک صدر اسلام کریموف نے جمعہ چوبیس جون کو مقامی میڈیا کو بتایا کہ پاکستان اور بھارت کے ساتھ ایس سی او میں شمولیت سے متعلق مذاکرات ’مشکل‘ ضرور تھے تاہم تنظیم کے ارکان کے درمیان بالآخر مفاہمت ہو ہی گئی۔
پوٹن نے یہ بھی کہا کہ اب ایران کے لیے بھی، جو آج کل مبصر کی حیثیت سے اس تنظیم کے اجلاسوں میں شریک ہوتا ہے، اس کا باقاعدہ رکن بننے کی راہ میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہی۔
ایس سی او کی قیادت چین اور روس کے ہاتھوں میں ہے اور اس کے رکن ملکوں میں قازقستان، کرغزستان اور تاجکستان بھی شامل ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ بنیادی طور پر یہ تنظیم وسطی ایشیا میں چینی اور روسی مفادات کے تحفظ کے لیے بنائی گئی ہے اور اس تنظیم نے اپنے کمزور رکن ممالک کو بلاک کی جنوبی سرحد پر واقع ملک افغانستان میں عدم استحکام کے اثرات سے بچانے کے لیے ناکافی اقدامات کیے ہیں۔