1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان اور بھارت کی ’سادہ لوح بیویاں‘

21 فروری 2013

بیشتر پاکستانی اور بھارتی لڑکیوں کے لیے بیرون ملک مقیم کسی شخص سے شادی اور مغرب میں نئی زندگی کی شروعات ایک سہانا خواب ہے لیکن اکثر اوقات ایسے خوابوں کی تعبیر ’بھیانک‘ صورت میں نکلتی ہے ۔

https://p.dw.com/p/17jam
تصویر: picture-alliance/dpa

ایشائی نژاد غیر ملکی دولہے کا ملنا پاکستان اور بھارت میں ایک خوبصورت ’کیچ‘ بھی سمجھا جاتا ہے۔ بہت سے خاندان اسے معاشرے میں اپنی عزت و توقیر میں اضافے سے جوڑتے ہیں۔ کسی پاکستانی لڑکی کے لیے شادی کر کے برطانیہ یا امریکا میں رہنا، جہاں پریوں کی کہانی جیسا لگتا ہے، وہیں کئی غریب گھرانوں کی خواتین کے لیے بیرون ملک مقیم شخص سے شادی ایک خوشحال زندگی کی شروعات کا ٹکٹ سمجھا جاتا ہے لیکن ان میں سے بہت سوں کے لیے یہ شادی ایک ’ڈراؤنا خواب‘ ہی ثابت ہوتی ہے۔

ایک 24 سالہ پاکستانی خاتون صبا جو 14 ماہ کے بچے کی ماں ہیں، کو اس کے شوہر نے اس کے حال پر چھوڑ دیا، جس کی زندگی کی گاڑی اب برطانیہ میں مقامی حکام کی مدد سے چلتی ہے۔

ڈی ڈبلیوسے بات کرتے ہوئے صبا نے بتایا، ’میرے سابق شوہر کے خاندان نے لاہور میں ایک میرج بیورو کے ذریعے رشتہ بھجوایا، تو ہمیں ان کا خاندان بہت اچھا لگا اور جلد ہی ہماری منگنی ہو گئی۔ چھ ماہ بعد میرا سسرالی خاندان برطانیہ سے پاکستان آیا اور ہم شادی کے بندھن میں بندھ گئے اور اسی ماہ میں حاملہ بھی ہو گئی‘۔

London Innenstadt Big Ben
بیرون ملک مقیم شخص سے شادی ایک خوشحال زندگی کی شروعات کا ٹکٹ سمجھا جاتا ہےتصویر: Fotolia/stoka79

شادی کے صرف سات ماہ بعد صبا ویزا لے کر لندن پہنچ گئی، جہاں سے اس کی مشکلات کا سفر شروع ہوا کیونکہ کچھ ہی عرصے بعد صبا کو اس کے سسرال نے ہراساں کرنا شروع کر دیا اور اس کے شوہر کی طرف سے ’شادی کے معاوضے‘ کے طور پر مزید جہیز کا مطالبہ کیا جانے لگا۔ صبا کہتی ہیں کہ اسے اس کے اپنے ہی گھر میں قید کر دیا گیا اور یہاں تک کہ اپنے والدین کے ساتھ بھی جب وہ فون پر بات کرتی تھی تو اس کی نگرانی کی جاتی تھی۔ وہ کہتی ہے، ’سسرالی میری تذلیل کیا کرتے تھے ا ور نوکرانیوں جیسا سلوک ہونے لگا‘‘۔ حاملہ ہونے کے باوجود اسے گھر کے سارے کام کاج کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ صبا کے مطابق،’حمل کے دوران طبی معائنوں کے لیے میرے شوہر کبھی میرے ساتھ ہسپتال نہیں گئے اور یہاں تک کہ جس دن میں نے اپنے بیٹے کو جنم دیا، اس دن بھی وہ میرے ساتھ نہیں تھے‘۔

بچے کی پیدائش کے کچھ عرصے بعد ہی صبا کو اس بہانے سے پاکستان بھیجا گیا کہ خاندان کے باقی لوگ اس کے بیٹے کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایک دن اس کا شوہر اپنے بیٹے کو یہ کہہ کر اپنے ساتھ لے گیا کہ کسی دوست کے گھر جانا ہے اور اگلے دن اس کا شوہر بیٹےکو لے کر لندن پہنچ گیا۔ یہ وہ کہانی ہے جو اس سے پہلے سینکڑوں خواتین کے ساتھ دہرائی جا چکی ہے۔

صبا نے اپنے بیٹے کی واپسی کے لیے ایک مشکل اور طویل جنگ لڑ ی۔ اب طلاق یافتہ صبا لندن میں ایک بیڈ روم کے کمرے میں اپنے بیٹے کے ساتھ رہ رہی ہے اور اپنے بیٹے کی پرورش کے لیے اپنے سابقہ شوہر سے اخراجات کے لیے قانونی جنگ لڑ رہی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستانی صوبے پنجاب کے وسطی علاقوں سے50 ہزار کے قریب ایسی خواتین ہیں جو ایسی ہی دوہری مشکل کا شکار ہیں۔

شادی کے صرف سات ماہ بعد صبا ویزا لے کر لندن پہنچ گئی، جہاں سے اس کی مشکلات کا لا متناہی سلسلہ شروع ہوا
شادی کے صرف سات ماہ بعد صبا ویزا لے کر لندن پہنچ گئی، جہاں سے اس کی مشکلات کا لا متناہی سلسلہ شروع ہواتصویر: Fotolia/davidevison

برطانیہ میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم جینا انٹرنیشنل کی ڈائریکٹر رانی بلخو نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بچوں کی ملکیت کے حوالے سے واقعات ناقابل یقین حد تک زیادہ ہیں۔ انہوں نے بتایا، ’ہم اسی طرح کے واقعات کی چھان بین کے لیے بھارت گئے تو یہ معلوم ہو کہ برطانیہ اور کینیڈا میں مقیم شوہر اپنی بیویوں کو بھارت ہی میں چھوڑجاتے ہیں اور اس رجحان میں تیزی آ رہی ہے۔ خاص طور پر بھارتی ریاست پنجاب میں اس طرح کے واقعات عام ہو گئے ہیں‘۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ اس طرح کی تمام خواتین جو شادی کے بعد اپنے شوہر کے ویزے کی وجہ سے بیرون ملک جاتی ہیں اور جب ان کے شوہر یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ اب وہ شادی کو مزید نہیں رکھنا چاہتے، توایسی خواتین کا ویزا منسوخ ہو جاتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ معاشرے کی روایات کے مطابق اس کو عزت و تو قیر کے خلاف اور قابل شرم عمل سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے ایسی خواتین اپنے ہی ملک میں ’اچھوت‘ بن کر رہ جاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ ایسی خواتین کوئی بڑا قدم نہیں اٹھانا چاہتی ہیں کیونکہ انہیں امید ہوتی ہے کہ ایک نہ ایک دن ان کے شوہر ان کے پاس واپس آ جائیں گے۔

اپنے شوہر کی بے اعتنائی کا شکار ہونے والی خواتین کی رہنمائی اسلام آباد میں برطانوی سفارتخانہ اور میرپور میں برطانوی قونصلیٹ کر رہا ہے، جو خواتین برطانیہ واپس جانا چاہتی ہیں، انہیں قانونی مدد کہاں سے اور کیسے حاصل کرنا ہے، کہاں رہنا ہے، کس تنظیم سے رابطہ کرنا ہے اور سفری دستاویزات کی تیاری کس طرح عمل میں لانا ہے۔

برطانوی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،’ہم ہمیشہ ہر کیس کی نوعیت کے مطابق انفرادی سطح پر مدد کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں‘۔

ادھر اسی نوعیت کے کیسز کے لیے ایک برطانوی قانونی مشیر اینی میری کے خیال میں مددگار اداروں کے باوجود خواتین ان سے مدد نہیں لیتی ہیں۔

برطانوی ہائی کورٹ نے بھی معاملے کی سنگینی کا نوٹس لیا ہے مگر اکثر اوقات ان واقعات کا شکار ہونے والوں کے لیے مشاوت اور قانونی مدد لینا دشوار ہوجاتا ہے کیونکہ ان کا تعلق دور افتادہ علاقوں سے ہوتا ہے اور ان کے پاس پیسے بھی نہیں ہوتے ہیں۔ اینی میری کہتی ہیں کہ سمندر پار افرادکی بیگمات اپنے امیگریشن اسٹیٹس کی وجہ سے اکثر اپنے شوہروں اور ان کے خاندانوں کی محتاج ہوتی ہیں، اسی لیے وہ ہر جبر سہتی رہتی ہیں کہ کہیں انہیں ملک بدر نہ کر دیا جائے۔

Indien Braut Frau Hochzeit
بھارتی ریاست پنجاب میں اس طرح کے واقعات عام ہو گئے ہیںتصویر: AP

انسانی حقوق کے کارکن کہتے ہیں کہ بیرون ملک مقیم نوجوان جب چھٹیوں پر اپنے ملک جاتے ہیں تو انہیں اپنے خاندان کی لڑکیوں سے شادی کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جاتا ہے اور ان میں سے بیشتر ’چھٹیوں کے دولہے‘ چونکہ مغربی ماحول میں پلے بڑھے ہوتے ہیں، اس لیے وہ ایک روایتی قسم کی لڑکی سے بیاہ رچانے پر راضی نہیں ہوتے ہیں، مگر اپنے والدین کی خواہش کے آگے گھٹنے ٹیکتے ہوئے وہ شادی تو کر لیتے ہیں لیکن ان میں سے بیشتر اپنی بیویوں کو مغربی ملکوں میں اپنے ساتھ نہیں لے جاتے۔

جینا انٹرنیشنل سے وابستہ رانی بلخو اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ اس رویے کی مختلف وجوہات ہیں مثلاﹰ شادی کے لیے دولہے پر اس کے خاندان کا دباؤ، جنسی خواہش اور حتٰی کہ بعض اوقات اس طرح کی شادیوں میں معاشی مفاد کا عنصر بھی ہوتا ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ برطانوی حکام کو اس طرح کے شوہروں سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی وضع کرنا پڑے گی، جو ایسی بیویوں کے نام پر معاشی مدد بھی لیتے ہیں، جنہیں وہ کوڑے دان میں پھینک چکے ہوتے ہیں اور محض بہبودی رقوم کے حصول کے لیے شادی کرتے ہیں۔ برطانوی سیاستدان بیرونس شریلہ فلیتھر اس رجحان پر کھل کر تنقید کرتی ہیں ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا،’کچھ مرد ایک سے زیادہ بیویوں کے ساتھ رہ رہے ہیں، جنہیں انہوں نےمختلف گھروں میں رجسٹرڈ کرایا ہوتا ہے اور وہ ان میں سے ہر ایک کے نام پر معاشی فائدہ لیتے ہیں۔‘

سمندر پار بھارتیوں کی طرف سے بھارت میں اس طرح کی فراڈ اور زبردستی کی شادیوں کے خلاف بھارتی پارلیمنٹ دو قوانین کی منظوری دے چکی ہے۔

اسی طرح بھارتی پنجاب میں بھی انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے ایک ایکٹ منظور کیا گیا ہے تاہم پاکستان میں ایسے واقعات کا شکار ہونے والی خواتین کی مدد کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے ہیں۔

Roma Rajpal/Rh/Richard Connor/at (DW)