پاکستان اور افغانستان میں القاعدہ کو شکست ہو رہی ہے، اوباما
8 اگست 2013امریکی صدر باراک اوباما نے بدھ کو کیلیفورنیا میں کیمپ پینڈلٹن ملٹری بیس میں میرنز سے خطاب میں کہا کہ دہشت گرد گروہ القاعدہ کے رہنما کمزور پڑ چکے ہیں۔ تاہم انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں امریکی سفارت خانوں کی بندش کا باعث بننے والے خطرے کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان اور پاکستان میں القاعدہ کو شکست کا سامنا ہے۔ امریکی صدر کا کہنا تھا: ’’افغانستان میں جنگ کے خاتمے کا یہ مطلب نہیں کہ ہماری قوم کو درپیش خطرہ انجام کو پہنچ گیا ہے۔ حالیہ دِنوں میں ہمیں یہ بات پھر سے یاد دلائی گئی ہے۔‘‘
باراک اوباما نے کہا کہ شدت پسند بیرون ملکوں میں امریکی پالیسیوں کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی نہیں کر پائیں گے۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں بھی کہا گیا ہے کہ القاعدہ کمزور ہو چکی ہے لیکن ختم نہیں ہوئی۔ یہ رپورٹ ماہرین کے ایک گروپ نے تیار کی ہے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو پیش کی گئی ہے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ القاعدہ کا سربراہ ایمن الظواہری پاکستان میں القاعدہ کی مرکزی قیادت کو اکٹھا کرنے میں ناکام رہا ہے۔ تاہم یہ بھی کہا گیا ہے کہ القاعدہ سے جڑے متعدد گروہ تاحال نئے اہداف تلاش کر رہے ہیں اور وہ بدستور خطرناک حملے کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق گو کہ مالی میں فرانس کی سربراہی میں عسکری کارروائی اور صومالیہ میں افریقی یونین نے القاعدہ کے شدت پسندوں کو پیچھے دھکیل دیا ہے لیکن شام کی خانہ جنگی میں سینکڑوں غیرملکی رضاکار شامل ہوئے ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا: ’’القاعدہ اور اس سے منسلک گروہ پہلے سے زیادہ ہو چکے ہیں اور ان کی اقسام میں بھی اضافہ ہوا ہے اور انہیں صرف دہشت گردی پر مبنی تشدد سے ڈھیلی ڈھالی وابستگی اور نظریے نے متحد کر رکھا ہے۔‘‘
اس کے مطابق: ’’بکھری ہوئی اور کمزور القاعدہ کا خاتمہ نہیں ہو سکا۔ القاعدہ کی کم تر اہلیتوں اور محدود اپیل کی حقیقت کا مطلب یہ نہیں کہ القاعدہ کے حملے رُک گئے ہیں۔‘‘
اقوام متحدہ کی اس رپورٹ میں القاعدہ سے منسلک افراد اور گروہوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ اپنے اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے نت نئے حربے استعمال کر رہے ہیں۔
امریکی صدر باراک اوباما اور دیگر امریکی اہلکاروں کی طرح اس رپورٹ میں بھی یہی کہا گیا ہے کہ مئی 2011ء میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد القاعدہ کمزور پڑی ہے اور اس کی علاقائی شاخیں لڑائی جاری رکھے ہوئی ہیں۔