1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: انتخابی عمل اور میڈیا

12 مئی 2013

پاکستان کی تاریخ کے اہم ترین انتخابات کے نتائج کا عمل اب مکمل ہونے کو ہے، انتخابی عمل کے آغاز سے لے کر نتائج آنے تک میڈیا کا کردار نہایت اہم رہا۔

https://p.dw.com/p/18WMp
تصویر: AP

ہفتے کی شام کو ملک بھر کے پولنگ اسٹیشنوں سے نتائج آنے کا شروع ہونے والا سلسلہ اب مکمل ہونے کو ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے پہلا حتمی نتیجہ نصف شب کے بعد پیش کیا گیا لیکن تمام ٹیلی ویژن اور ریڈیو اسٹیشنز نے اپنے ناظرین اور سامعین کو لمحہ بہ لمحہ با خبر رکھا۔

اس مقصد کے لیے تقریباً سبھی ٹیلی ویژن چینلز نے اپنے خصوصی الیکشن سیل بنائے جہاں سے عوام کو باخبر رکھنے کے لیے خبریں نشر کی گئیں۔ پہلا نتیجہ نشر کرنے کی دوڑ میں ہر چینل دوسرے سے برتری لینے کی کوشش کرتا نظر آیا۔ سوشل میڈیا پر یہ خبر گردش کرتی رہی کہ ایک نجی چینل نے تو ووٹنگ کا وقت ختم ہونے سے پہلے ہی ایک پولنگ اسٹیشن سے نتیجے کا اعلان کردیا۔

Pakistan Fernsehen Logo SAMAA TV
گزشتہ 5 سالوں میں میڈیا نے بھی اپنے آپ کو ایک طاقت کے طور پر منوایا ہےتصویر: APGraphics

الیکٹرانک میڈیا پر الیکشن سے کئی ہفتے پہلے ہی خصوصی پروگرام نشر کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا، جن میں سیاسی جماعتوں کے منشور سابقہ حکومتوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جاتا رہا۔ ماہرین کی رائے میں ان پروگراموں نے پاکستان میں رائے عامہ کو ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

الیکٹرانک میڈیا کے بڑھتے ہوئے اسی اثر کی وجہ سے نیوز ہی نہیں انٹرٹینمنٹ چینلز پر بھی حالیہ انتخابی مہم میں اشتہاروں کی بارش ہوئی۔ کئی ایسے ادارے جن کے کارکنوں کو کئی ماہ سے تنخواہیں نہیں مل رہی تھیں ان کی معاشی کمر بھی سیدھی ہوگئی اور وہ تنخوائیں دینے کے قابل ہوگئے۔

پاکستان میں تجزیہ کاروں کی ایک غالب اکثریت یہ خیال کرتی ہے کہ گزشتہ 5 سالوں میں جہاں دیگر کئی ریاستی ادارے مضبوط ہوتے نظر آتے ہیں وہیں میڈیا نے بھی اپنے آپ کو ایک طاقت کے طور پر منوایا ہے۔ اس لیے میڈیا پر ذمہ داری بہت بڑھ گئی ہے۔

میڈیا نمائندوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ سیاسی تجزیے کرتے وقت احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ پولنگ سے ایک روز پہلے ہونے والے انتخابی تجزیوں کے مطابق حاجی غلام احمد بلور کو پشاور اور عمران خان کو لاہور سے جیتنا چاہیے تھا لیکن نہ بلور پشاور سے اور نہ عمران خان لاہور سے جیت سکے۔ اسی طرح شیخ رشید کی شکست اور گلوکار ابرارالحق کی کامیابی کے تجزیے بھی درست ثابت نہیں ہوئے۔

ARY Digital Pakistanischer Fernsehsender
الیکٹرانک میڈیا پرالیکشن سے کئی ہفتے پہلے ہی خصوصی پروگرام نشر کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا،

ایک چینل پر ایک اینکر کا پولنگ سے ایک روز پہلے دعویٰ تھا کہ لاہور میں تبدیلی آگئی ہے لیکن لاہور کے انتخابی نتائج آنے کے بعد وہ نظر نہیں آئے۔ یہ انتخابات تھے ہی ناقابل پشن گوئی لیکن پیشن گوئیاں کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔

ہمارے تجزیہ نگاروں کو خیبر پختونخوا میں آنے والے سونامی کا ہی اندازہ نہیں ہو سکا ایک نجی چینل کے رپورٹر آپس میں لڑتے رہے اور ایک دوسرے کے تجزیوں کو غلط ثابت کرتے رہے۔ شاید یہ ریٹنگ بڑھانے کا ایک طریقہ بھی ہو سکتا ہے جبکہ بعض چینلوں پر معیاری گفتگو کو ناظرین نے سوشل میڈیا پر بھی سراہا۔

چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم نے روایات کے مطابق پہلے انتخابی نتیجے کا اعلان بارہ مئی شب دو بجے کیا جبکہ نجی چینلوں نے پولنگ کے خاتمے سے پہلے یہ اطلاعات فراہم کرنا شروع کرنی تھیں۔ معلومات فراہم کرنے کا یہ طریقہ دلچسپ ضرور تھا لیکن اس کے منفی پہلوﺅں کا بھی جائزہ لینا ضروری ہے لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کو مشرف اور زرداری دورکے بعد اب نواز شریف کے جمہوری دور کاسامنا ہوگا یہ بھی خاصا دلچسپ تجربہ ہوگا ۔

رپورٹ: محسن رضا

ادارت: زبیر بشیر