1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی مردوں کی چینی ’کیمپوں میں قید‘ ایغور مسلم بیویاں

17 دسمبر 2018

پاکستانی شہری چوہدری جاوید عطا نے آخری بار اپنی بیوی کو ایک سال پہلے دیکھا تھا۔ تب یہ پاکستانی تاجر چین کے شمال مغربی مسلم اکثریتی علاقے سنکیانگ سے اس لیے واپس پاکستان جا رہے تھے کہ اپنے ویزے کی تجدید کروا سکیں۔

https://p.dw.com/p/3AFVu
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Weiken

چوہدری جاوید عطا خشک اور تازہ پھلوں کے ایک ایسے پاکستانی تاجر ہیں، جو سنکیانگ میں ایغور مسلم نسل کی اپنی چینی بیوی کے ساتھ اپنے گھر میں خوشی سے رہ رہے تھے۔ انہیں اچھی طرح یاد ہے کہ ان کی چینی اہلیہ نے ان سے آخری بات یہ کہی تھی، ’’جیسے ہی تم جاؤ گے، وہ (چینی حکام) مجھے کسی کیمپ میں لے جائیں گے اور پھر میں کبھی واپس نہ لوٹ سکوں گی۔‘‘

دو سو پاکستانیوں کی بیویاں لاپتہ

یہ اگست 2017ء کی بات ہے۔ تب جاوید عطا اور چین میں ایغور مسلم نسلی اقلیت سے تعلق رکھنے والی ان کی اہلیہ امینہ ماناجی کی شادی کو 14 برس ہو چکے تھے۔ چوہدری جاوید عطا پاکستان کے ان قریب 200 کاروباری افراد میں سے ایک ہیں، جن کی چینی بیویاں لاپتہ ہو چکی ہیں۔ ان چینی خواتین کو ملکی حکام ’تعلیمی تربیتی مراکز‘ کہلانے والے کیمپوں میں پہنچا چکے ہیں۔

Pakistan Außenministerium in Islamabad
اسلام آباد میں پاکستانی وزارت خارجہ کی عمارتتصویر: picture-alliance/Anadolu Agency/I. Sajid

بیجنگ حکومت پر الزام ہے کہ اس نے ملک میں مسلم اقلیتی آبادی کے قریب ایک ملین تک افراد کو نظربندی کیمپوں میں بند کر رکھا ہے، جہاں ان مسلم شہریوں کی انہیں ان کے مذہب سے دور کرنے کے لیے ’نئے سرے سے تربیت‘ کی جا رہی ہے۔ بیجنگ حکومت نے یہ قدم سنکیانگ میں ہونے والے ان مظاہروں اور بدامنی کے واقعات کے ردعمل میں اٹھایا، جن کے لیے سرکاری طور پر ایغور علیحدگی پسندوں کو قصور وار قرار دیا جاتا ہے۔

’یہ کیمپ نہیں، جیلیں ہیں

اس بارے میں چوہدری جاوید عطا نے نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا، ’’وہ (چینی حکام) ان کیمپوں کو ’اسکول‘ قرار دیتے ہیں۔ لیکن دراصل وہ جیلیں ہیں، جن سے کوئی بھی باہر نہیں نکل سکتا۔‘‘ پاکستان میں، جو اکثریتی طور پر ایک مسلم آبادی والا ملک ہے، دنیا کے کسی بھی ملک میں اسلام یا مسلمانوں کے ساتھ مبینہ زیادتیوں کی صورت میں احتجاجی مظاہرے شروع ہو جاتے ہیں۔ حال ہی میں ایسے پرتشدد مظاہرے اس وقت بھی دیکھنے میں آئے تھے جب ہالینڈ کے ایک متنازعہ سیاستدان گیئرٹ ولڈرز نے پیغمبر اسلام کے خاکوں کے ایک متنازعہ مقابلے کا اہتمام کرنے کا اعلان کیا تھا۔

لیکن ہمسایہ ملک چین سے وابستہ پاکستان کے سیاسی اور اقتصادی مفادات کی وجہ سے، جن میں بیجنگ کی طرف سے پاکستان میں کی جانے والے موجودہ بےتحاشا سرمایہ کاری بھی شامل ہے،  اسلام آباد حکومت اور کئی دیگر مسلم ممالک چین کے ایغور مسلم شہریوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر مسلسل خاموش ہیں۔

پاکستان اور مسلم دنیا خاموش کیوں

واشنگٹن میں قائم وُڈرو ولسن سینٹر کے ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کُوگل مین کے بقول ’فیصلہ کن حیثیت ہمیشہ ٹھوس مفادات ہی کی رہی ہے۔‘‘ وہ کہتے ہیں، ’’مسلم دنیا نے اب تک بیجنگ حکومت کی طرف سے چینی ایغور مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک پر جو مسلسل خاموشی اختیار کر رکھی ہے، اس کا سبب وہ اقتصادی مفادات ہیں، جن کے ذریعے مسلم ممالک دنیا کی اگلی سپر پاور کے ساتھ اپنے قریبی روابط قائم رکھنا چاہتے ہیں۔‘‘

سی پیک بھی ایک وجہ

پاکستان کو سرمائے کی شدید کمی کا سامنا ہے اور چین اپنے اس ہمسایہ ملک میں بہت سے بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں کے لیے مالی وسائل مہیا کر رہا ہے۔ ان منصوبوں میں سے ایک چین پاکستان اقتصادی راہداری یا ’سی پیک‘ بھی شامل ہے، جس کے لیے اسلام آباد کے مطابق چین پاکستان میں قریب 75 ارب ڈالر تک کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔

مستقبل میں زیادہ خوشحالی کی خواہش مند پاکستانی حکومت ملک میں اس چینی سرمایہ کاری کو انتہائی اہم قرار دیتی ہے۔ اس لیے بھی کہ ایک عام پاکستانی شہری ابھی تک ماہانہ صرف قریب 125 امریکی ڈالر کے برابر آمدنی میں گزارہ کرنے پر مجبور ہے۔

بچوں کے پاسپورٹ بھی ضبط

دوسری طرف چوہدری جاوید عطا کے لیے معاملہ صرف ان کی ان کی بیوی سے جبری علیحدگی کا نہیں ہے۔ وہ واپس پاکستان جاتے ہوئے اپنے پانچ اور سات سال کی عمر کے دو بیٹے بھی اپنی چینی اہلیہ کے پاس ہی چھوڑ آئے تھے، جن کے پاسپورٹ چینی حکام نے ضبط کر رکھے ہیں۔ اس وقت یہ دونوں پاکستانی نژاد چینی لڑکے اپنی والدہ کے خاندان کی نگہداشت میں ہیں۔

اپنی بیوی کے حراست میں لیے جانے کے بعد سے جاوید عطا دو مرتبہ چند ماہ کے لیے چین جا چکے ہیں۔ لیکن دونوں مرتبہ ہی انہیں اپنا ویزا ختم ہو جانے پر واپس پاکستان لوٹنا پڑا۔ اب اس پاکستان شہری کے لیے اپنی ایک ’تربیتی کیمپ میں بند اور حکام کی طرف سے بھلا دی گئی‘ چینی بیوی سے کسی طرح رابطہ کرنا یا ان کے بارے میں کوئی بھی معلومات حاصل کرنا انتہائی مشکل ثابت ہو رہا ہے۔

دونوں بیٹوں سے رابطہ بھی ممکن نہیں

چوہدری جاوید عطا کہتے ہیں، ’’میرے لیے بہت زیادہ پریشانی کی بات یہ ہے کہ اب قریب نو ماہ ہونے کو ہیں، میں نے اپنے بیٹوں کو نہیں دیکھا۔ مجھے ان سے بات تک کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ جاوید عطا نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا، ’’سنکیانگ میں میرے دوستوں نے مجھے بتایا کہ میرے برادر نسبتی کو دل کا دورہ پڑا تھا اور وہ سنکیانگ کے دارالحکومت ارمچی کے ایک ہسپتال میں تھا۔ مجھے بالآخر اس سے بات کرنے کا موقع ملا تو اس نے بتایا کہ میرے دونوں بیٹے خیریت سے ہیں۔ لیکن میری بیوی کیسی ہے، اس بارے میں تو اس کے بھائی کو بھی کوئی خبر نہیں تھی۔‘‘

پاکستانی شوہروں کی ’مقید‘ چینی بیویاں

پاکستانی سینیٹر مشاہد حسین کی منطق

پاکستانی سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کے چیئرمین مشاہد حسین کہتے ہیں کہ پاک چین تعلقات کا بنیادی اصول یہ ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے داخلی معاملت میں مداخلت اور ان پر کوئی تبصرہ کرنے سے بھی احتراز کرتے ہیں۔

دوسری طرف چینی حکام کا مسلسل دعویٰ ہے کہ سنکیانگ میں قریب ایک ملین تک ایغور مسلم شہریوں کا ’تربیتی مراکز‘ میں بھیجا جانا ایک ایسی کوشش ہے، جس کا مقصد سنکیانگ میں ’استحکام اور دیرپا امن‘ کو یقینی بنانا ہے۔

لیکن جس بات کی پاکستانی سینیٹ کے رکن مشاہد حسین نے وضاحت نہیں کی وہ یہ ہے کہ اگر معاملہ سینکڑوں پاکستانی شہریوں کی چینی بیویوں اور ان سے پیدا ہونے والے پاکستانی نژاد چینی بچوں کا ہو، تو اس بارے میں اسلام آباد کی طرف سے بیجنگ کے ساتھ کوئی باضابطہ بات چیت کرنے کو چین کے داخلی معاملات میں مداخلت کا نام کیسے دیا جا سکتا ہے۔

م م / ع ت / اے پی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں