1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی قبائلی علاقوں میں 70 فیصد بچے اسکولوں سے محروم

فرید اللہ خان، پشاور13 مئی 2014

گزشتہ پانچ سالوں کے دوران دہشت گردوں نے قبائلی علاقوں میں481 اسکول تباہ کیے۔ ان اسکولوں میں سے 158کی بحالی ممکن ہوسکی جبکہ فنڈز کی کمی کے باعث 323 اسکول ابھی تک ویران پڑے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1BywM
تصویر: Amima Sayeed/UNESCO

وفاقی حکومت کی طرف سے قبائلی علاقوں کے معاملات کو چلانے کے لیے قائم فاٹا سیکرٹریٹ کے سال2013ء کے اعداد و شمار کے مطابق سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے نرسری سے پانچویں تک 60 فیصد سے طلبہ اسکول چھوڑ چکے ہیں جبکہ چھٹی کلاس سے دسویں تک ایسے طلبہ کی تعدد 72 فیصد سے زائد ہے۔

پشاور سے متصل خیبر ایجنسی میں تباہ شدہ اسکولوں کی وجہ سے ایک لاکھ 40 ہزار بچے تعلیم کے حق سے محروم ہیں، جبکہ ایک بڑی تعداد میں بچے دہشت گردوں کی کاروائیوں اوران کے خلاف سکیورٹی فورسز کے آپریشن کی وجہ سے اپنے والدین کے ساتھ نقل مکانی کرچکے ہیں۔

گزشتہ پانچ سالوں کے دوران دہشت گردوں نے قبائلی علاقوں میں481 اسکول تباہ کیے
گزشتہ پانچ سالوں کے دوران دہشت گردوں نے قبائلی علاقوں میں481 اسکول تباہ کیےتصویر: dpa

قبائلی علاقوں میں تعلیمی پسماندگی کے بارے میں وزیرستان اسٹوڈنٹس سوسائٹی کے صدر ہاشم اللہ داوڑ نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’قبائلی علاقوں میں تعلیمی اداروں کا کوئی انفراسٹرکچر نہیں۔ ہفتے میں دو دن علاقے میں کرفیو ہوتا ہے اور ایک بڑا مسئلہ غیر مقامی اساتذہ کی تعیناتی بھی ہے۔ باہر سے یہاں آنے والے اساتذہ ڈیوٹی کے لیے تیار نہیں جبکہ انتظامیہ مقامی لوگوں کو تعینات کرنے سے گریزاں ہے۔ علاقے میں ہر وقت گن شپ ہیلی کاپٹرز گشت کرتے ہیں ایسے میں جب اسکول جانے والے بچے اس کی آواز سنتے ہیں تو اسکول کی بجائے گھر واپس آجاتے ہیں۔ ان سکولوں میں پانی، بجلی اور دیگر سہولیات کا بھی فقدان ہے۔‘‘

قبائلی علاقوں سے ایک بڑی تعداد میں لوگ نقل مکانی کر کے خیبر پختونخوا کے مختلف شہروں میں رہائش پذیر ہیں۔ تاہم کیمپوں میں رہنے والوں کے بچوں کے لیے صحت اور تعلیم کی مناسب سہولیات موجود نہیں۔ جب اس سلسلے میں فاٹا کے قدرتی آفات سے نمٹنے والے ادارے کے ڈائریکٹر جنرل ارشد خان سے ڈوئچے ویلے نے بات کی تو انہوں نے کہا، ”جہاں انرولمنٹ بہتر ہے وہاں ترجیحی بنیادوں پر بحالی کا کام کر رہے ہیں۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ عالمی ادارہ خوراک کی جانب سے تعلیم حاصل کرنے والوں کو ٹنوں کے حساب سے اشیائے خورد ونوش فراہم کی جارہی ہیں۔ ارشد خان کا مزید کہنا تھا، ’’بحالی کے پروگرام کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، ایک قبائلی علاقوں کے سالانہ ترقیاتی فنڈز سے کر رہے جبکہ دوسرا حصہ اقوام متحدہ کے مختلف اداروں کی تعاون سے پورا کریں گے۔‘‘

فاٹا سیکرٹریٹ کے ذمے خیبر پختونخوا ٹیکسٹ بورڈ کے 392 ملین روپے کے بقایا جات تھے، جسکی وجہ سے انہوں سال رواں کے دوران کتابوں کی فراہمی روک دی۔ تاہم بعدازاں اعلیٰ حکام کی مداخلت پر مہمند ایجنسی کے 515 اسکولوں کے 82 ہزار کے قریب طلباء وطالبات میں مفت کتابوں کر فراہمی کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔