1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی صوبوں کے وزرائے اعلی

3 جون 2013

پاکستان میں حکومت سازی کا عمل تکمیل کے آخری مراحل میں ہے، اب یہ بات پوری طرح واضح ہو چکی ہے، کہ اگلے پانچ سالوں کے لیے کس کس صوبے کا اقتدار کون کون سنبھالے گا۔

https://p.dw.com/p/18j1e
تصویر: DW

گیارہ مئی کے انتخابات کے بعد تشکیل پانے والی صوبائی اسمبلیوں کے نتائج کے مطابق ملک میں سندھ اور پنجاب ایسے صوبے ہیں جہاں پرانے وزرائے اعلی ہی دوبارہ صوبائی حکومتیں سنبھالیں گے، جبکہ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں ان عہدوں کے لیے نئے چہرے سامنے آئے ہیں۔

پاکستان کے سینیئر صحافی اور معروف تجزیہ نگار ایاز خان کہتے ہیں کہ پچھلے دور حکومت میں شہباز شریف کی کارکردگی سے پنجاب کے لوگ قدرے مطمئن دکھائی دیے تھے اور کہا جاتا تھا کہ بطور وزیر اعلی ان کی کارکردگی باقی صوبوں کے وزرائے اعلی سے کافی بہتر رہی ہے۔ لیکن اس مرتبہ شہباز شریف کو کافی ٹف مقابلے کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ اس مرتبہ دوسرے صوبوں میں بھی کافی بہتر لوگ سامنے آرہے ہیں۔ ان کے بقول شہباز شریف کے لیے بجلی کی لوڈشیڈنگ بھی بڑا مئسلہ ہوگا اور اس مرتبہ وہ وفاقی حکومت کے خلاف مینار پاکستان پرلوڈ شیڈنگ کے حوالے سے احتجاجی کیمپ بھی نہیں لگا سکیں گے۔

Wahlen in Pakistan 2013
تصویر: Reuters

ان کے بقول بلوچستان میں سرداروں اور نوابوں کے روایتی حکمران خاندانوں کی بجائے ایک بہت پڑھے لکھے عام بلوچ رہنما ڈاکٹر عبدالمالک کو وزارت اعلی کا قلمدان دینا ایک بہت بڑا اور شاندار اقدام ہے اور اس کے مثبت اثرات سامنے آنے کی توقع ہے۔ ادھر خیبر پختونخواہ میں تبدیلی کا نعرہ لگانے والی تحریک انصاف کی طرف سے تجربہ کار سیاست دان پرویز خٹک سامنے آئے ہیں دیکھنا ہے کہ وہ کس طرح کی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ایاز خان کے بقول خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے وزرائے اعلی کو دہشت گردی، امن و امان، وفاق مخالف تحریکوں اور گڈ گورنس کے حوالے سے چیلنجز کا سامنا رہنے کا امکان ہے، جبکہ سندھ میں قائم علی شاہ کی کارکردگی پہلے کی طرح رہنے کی توقع ہے۔ آصف علی زرداری سے ان سے مرضی کا کام لینے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی البتہ اس صوبے میں امن و امان کی صورتحال صوبائی حکومت کے لیے ایک چیلنج بنی رہے گی۔

یاد رہے بلوچستان میں وزارت اعلی کے لیے نیشنل پارٹی کے سربراہ پچپن سالہ ڈاکٹر عبدالمالک کو نامزد کیا گیا ہے، جو کہ تربت کے علاقے سے بننے والے صوبے کے پہلے وزیر اعلی ہیں۔ پیشے کے اعتبار سے آنکھوں کے ڈاکٹرکے طور پر ماضی میں باقاعدہ پریکٹس کرنے والے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ تربت میں پیدا ہوئے۔ انٹر تک یہیں سے تعلیم حاصل کی،بولان میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیا۔ بلوچستان سٹوڈنٹس ارگنائزیشن کے پلیٹ فارم سے طلبہ سیاست میں بھی سرگرم رہے، بلوچستان نیشنل موومنٹ بنائی پھر اپنی پارٹی سمیت ایک نئی بننے والی جماعت نیشنل پارٹی میں چلے گئے۔ بلوچستان حکومت میں صحت اور تعلیم کے وزیر رہ چکے ہیں۔ دوہزار چھہ سے دو ہزار بارہ تک سینٹر رہے۔ کرپشن ، لاپتہ افراد اور امن و امان کی صورتحال ان کے لیے بڑے چیلنجز ہوں گے۔

Imran Khan PTI Pakistan
خیبر پختونخوا میں عمران خان کی سیاسی جماعت کے وزیراعلیٰ کا انتخاب ہوا ہےتصویر: Reuters

صوبہ خیبر پختونخواہ کی وزارت اعلی سینئر سیاستدان، پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی سیکریٹری جنرل تریسٹھ سالہ پرویز خٹک کے حصے میں آئی ہے۔ ضلع نوشہرہ کے علاقے مانکی شریف سے تعلق رکھنے والے پرویز خٹک بیک وقت قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں سے منتخب ہوئے تھے۔ سن 1983 میں ضلع کونسل کے رکن کی حیثیت سے سیاسی کیریئر کا آغاز کرنے والے خٹک پانچ مرتبہ صوبائی اسمبلی کے رکن اور تین مرتبہ صوبائی وزیر رہ چکے ہیں۔ وہ مشرف دور میں نوشہرہ کے ضلعی ناظم بھی رہے۔ تحریک انصاف جوائن کرنے سے قبل وہ پاکستان پیپلز پارٹی اور پیپلز پارٹی شیر پاو میں بھی رہے ہیں۔ وہ ایچیسن کالج لاہور میں عمران خان کے ہم جماعت بھی بتائے جاتے ہیں۔

اناسی سالہ قائم علی شاہ پیپلز پارٹی کے حلقوں میں بڑے احترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔ پنجاب کے نئے وزیر اعلی پاکستان کے نامزد وزیراعظم نواز شریف کے چھوٹے بھائی شہباز شریف ہیں۔ ان کی شہرت ایک سخت گیر منتظم کی ہے۔ گلگت بلتستان نامی صوبے کو سن 2009 میں اپنی اسمبلی منتخب کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔ پیپلز پارٹی کے رہنما سید مہدی شاہ اس کے وزیر اعلی ہیں۔

رپورٹ: تنویر شہزاد،لاہور

ادارت: عابد حسین