پاکستانی شہر کوئٹہ میں کار بم دھماکہ: ایک درجن سے زائد افراد ہلاک
31 دسمبر 2011کوئٹہ شہر میں جمعے کی شام ہونے والے کار بم دھماکے کا مقام ارباب اکرم خان روڑ تھا۔ اس بم دھماکے والی جگہ کے قریب ہی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سابق وفاقی وزیر نصیر مینگل کا مکان بھی واقع ہے۔ یہ مکان ان کے بیٹے شفیق مینگل کے زیر استعمال ہے۔ فوری طور پر اس بات کا تعین نہیں ہو سکا کہ کار بم دھماکے کا نشانہ سابق وفاقی وزیر کا گھر تھا یا نہیں۔ نصیر مینگل مسلم لیگ (ق) کے رہنما ہیں۔ فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں وہ وزیر تیل تھے۔
بلوچستان کی صوبائی حکومت کے بعض ذرائع نے اس زوردار دھماکہ میں پندرہ افراد کے ہلاک اور دیگر تیس زخمی ہونے کا بتایا ہے۔ پولیس اور دیگر سکیورٹی ایجنسیوں نے بم دھماکے کے مقام کو اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے۔ زخمیوں کو سول ہسپتال، بولان میڈیکل کمپلیکس اور سی ایم ایچ پہنچا دیا گیا ہے۔ اسی طرح موقع سے ملنے والی نعشیں بھی ہسپتال منتقل کر دی گئیں۔
زور دار بم دھماکے کی آواز بہت دور تک سنی گئی۔ اس دھماکے سے بے شمار گھروں اور عمارتوں کے شیشے ٹوٹنے کے علاوہ دیواروں اور چھتوں میں دراڑیں پیدا ہو گئیں۔ بجلی کے نظام میں تعطل سے سارا علاقہ اندھیرے میں ڈوب گیا۔ بم دھماکے کے بعد ارباب اکرم خان روڑ پر واقع دکانوں اور مکانوں میں آگ بھی لگ گئی۔ نصیر مینگل کا مکان بھی آگ کی لپیٹ میں آ گیا تھا۔ اس آگ پر فائر بریگیڈ کے عملے نے قابو پایا۔
ڈپٹی انسپکٹر جنرل آپریشن نذیر کُرد کے مطابق ابتدائی تحقیقات کے مطابق دھماکہ ایک گاڑی میں نصب ایک طاقتور بم کے پھٹنے سے ہوا۔ کرد کا یہ بھی کہنا تھا کہ تفتیش کے شواہد بم دھماکے میں ضائع ہو گئے ہیں اور تفتیش کا عمل سردست مشکل دکھائی دیتا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے بھی بم دھماکے کی تفتیش کا حکم صادر کیا ہے۔ دھماکے سے شہریوں میں خوف پھیل گیا اور دھماکے کے بعد شہر کی اکثر مارکیٹیں بند ہوگئیں۔
کوئٹہ شہر پہلے ہی فرقہ واریت اور نسلی تعصب کی لپیٹ میں ہے۔ سانحہ خروٹ آباد کے اہم گواہ سرجن ڈاکٹر باقر شاہ کو بدھ کے روز ہلاک کردیا گیا تھا۔ ان کے قتل کے بعد سے شہر کی مجموعی صورت حال خاصی کشیدہ ہو چکی ہے۔
درین اثناہ علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (BLA) کے ترجمان میرک بلوچ نے ایک نامعلوم مقام سے برطانوی نشریاتی ادرے بی بی سی (BBC) کو ٹیلی فون پر اس بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کرنے کا بتایا۔ ترجمان کے مطابق یہ ایک خود کش حملہ تھا اور بلوچ لبریشن آرمی کی ذیلی تنظیم مجید بریگیڈ کے ایک کارکن درویش بلوچ نے اس خودکش حملے میں حصہ لیا۔ میرک بلوچ نے حکومت پر واضح کیا ہے کہ مستقبل میں ایسے خودکش حملوں کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: شادی خان سیف