1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی زراعت بھی لاک ڈاؤن سے متاثر

عبدالستار، اسلام آباد
22 اپریل 2020

پاکستان میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے جہاں صنعتوں کا نقصان ہو رہا ہے، وہیں زراعت کا شعبہ بھی متاثر ہو رہا ہے۔ ماہرین اور کاشت کاروں کا خیال ہے کہ اگر لاک ڈاؤن طوالت پکڑتا ہے تو ملک میں فوڈ سیکیورٹی کا بحران پیدا ہو سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/3bFtH
Pakistan Landwirtschaft Wagen beladen mit Rettich
تصویر: Getty Images/AFP/A. Ali

پاکستان میں لاک ڈاؤن کی مدت میں توسیع کی جاتی ہے تو زرعی شعبے سے صنعت کو ملنے والے خام مال کی قلت بھی پیدا ہوسکتی ہے۔ نئے کورونا وائرس سے نمٹنے کی خاطر پاکستان میں لاک ڈاؤن جاری ہے، جس پر ملک کے مختلف حلقے منقسم نظر آتے ہیں۔

پاکستان میں عام حالات میں بھی گندم اور چینی کے بحران آتے رہتے ہیں، جب کہ ان غیر معمولی حالات میں ان جیسے بحرانوں کی آمد کے خدشات مزید شدید ہوتے جا رہے ہیں۔ پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکریٹری فاروق طارق کا کہنا ہے لاک ڈاؤن کی وجہ سے سینکڑوں ٹن پھل، سبزیاں اور پھول پہلے ہی ضائع ہوچکے ہیں، لیکن اس ساری تباہی کے باوجود حکومت نے چھوٹے کاشت کاروں اور بے زمین کسانوں کے لیے کوئی ریلیف پیکج نہیں دیا۔

یہ بھی پڑھیے: پاکستان: کورونا وائرس کے خوف تلے گندم کی کٹائی کا کام جاری

کپاس کا سیزن بھی متاثر ہو سکتا ہے

فاروق طارق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم کسان گندم بیچنے میں بھی پریشانی کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ جو کسان دودھ کے کاروبار سے منسلک ہے وہ بھی دودھ سستا پیچنے پر مجبور ہو چکا ہے۔ گندم کی کٹائی کا موسم ہے لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے مزدور نہیں مل پا رہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، ''پاسکو کسانوں سے گندم نہیں خرید رہا، جس کی وجہ سے کسان چودہ سو پچاس والی بوری ایجنٹوں کو بارہ سے پچاس روپے میں بیچنے پر مجبور ہیں۔ اسی طرح وقت پر بیچ، کھاد اوردوسری اشِیا نہیں مل رہی، جس کی وجہ سے کپاس متاثر ہو سکتی ہے اور اس کا نقصان نہ صرف زراعت بلکہ صنعت کو بھی ہو گا۔‘‘

زراعت کا اللہ ہی حافظ

وہاڑی کی تحصیل بورے والا سے تعلق رکھنے والے محمد اسلم کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہر چیز مہنگی ہو گئی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہماری ایک مربع زمین ہے، جس میں ہم گندم، مکئی او گنا اگاتے ہیں لیکن ابھی یہ صورت حال ہے کہ بجلی چھ سات کی جگہ چودہ روپے فی یونٹ ہوگئی ہے۔ مکئی کا بیج جو چھ ہزار فی بوری ملتا تھا اب وہ ساڑھے نو ہزار ہو گیا ہے۔ کھاد اور دیگر اشیاء کی قیمتوں میں بھی چالیس فیصد سے زیادہ اضافہ ہوگیا ہے۔ اگر یہ لاک ڈاؤن لمبا چلا تو پھر زراعت کا اللہ ہی حافظ ہے۔‘‘

یہ بھی پڑھیے: کورونا کے خلاف پاکستانی حکومتی اقدامات کافی ہیں؟

زراعت کی ایک عالمی تنظیم سے وابستہ عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''لاک ڈاؤن کی وجہ سے تحصیل اور ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز سے زراعت کے لیے اشیا وقت پر فراہم نہیں ہو سکیں۔ کئی فصلوں کی کاشت دو ہفتے سے تاخیر کا شکار ہوئی۔ ٹرانسپورٹ نہ ہونے کہ وجہ سے ان کی برآمد بھی رکی ہوئی ہے اور گندم شہروں کی فلور ملز تک نہیں پہنچ پا رہی، جس کی وجہ سے فوڈ سیکیورٹی کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ خوف کی وجہ سے کاشت کاروں نے اشیاء خریدنے کے لیے شہروں کو رخ نہیں کیا، ''حکومت کی پروکیورمنٹ پالیسی جو جنوری یا فروری میں آتی تھی، وہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے مارچ میں آئی۔ جس کی وجہ سے کاشت کاروں میں اضطراب ہے۔ بڑے پیمانے پر آم کی ایکسورٹ متاثر ہو سکتی ہے کیونکہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے شپنگ اور ٹرانسپورٹیشن بہت سست ہے۔ تو یہ سارے عوامل کسی بڑے بحران کو جنم دے سکتے ہیں۔‘‘

سندھ آباد گار بورڈ کے نائب صدر محمود نواز شاہ کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے سینکڑوں من ٹماٹر یا تو ضائع ہو گیا ہے یا کسان یہ ٹماٹر جانوروں کو کھلا رہے ہیں، ''لاک ڈاؤن کی وجہ سے پہلے کھاد اور دوسری اجناس وقت میں نہیں مل سکیں۔ سبزی اور دوسری زرعی اجناس سندھ مارچ اور اپریل میں افغانستان اور دوسرے صوبوں کو بھیجتا ہے لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے وہ بھی متاثر ہے اور مقامی مارکیٹ میں بھی ان کی قیمت چالیس فیصد سے زیادہ گر چکی ہے۔ جس کی وجہ سے کسان کی محنت ضائع ہورہی ہے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں