پاکستانی خواجہ سراؤں کے لیے راولپنڈی این سی اے ایک سنگ میل
16 جنوری 2016روزگار کے حوالے سے پاکستان میں اپنی نوعیت کی اولین پیش رفت کے طور پر لیاقت باغ میں قائم مشہور تعلیمی ادارے راولپنڈی نیشنل کالج آف آرٹس یا این سی اے کی کنٹین پچھلے قریب چھ ماہ سے متعدد خواجہ سرا مل کر اور بخوبی چلا رہے ہیں۔ یہ اقدام ٹرانس جینڈر کمیونٹی یا خواجہ سراؤں کو معاشرے میں ان کے بنیادی شہری حقوق دینے کی طرف ایک مثال کی حیثیت رکھتا ہے، اس لیے کہ قدامت پسند مسلم اکثریتی پاکستان میں ’تیسری جنس‘ کہلانے والے ان شہریوں کا روزگار کی ملکی منڈی میں باقاعدہ حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔
اس بارے میں راولپنڈی این سی اے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ندیم عمر تارڑ نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں بتایا، ’’سن دو ہزار نو میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک بہت تاریخی فیصلہ کیا تھا، جس میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی کو مساوی حقوق دینے یعنی ووٹ کا حق دینے اور ان کے شناختی کارڈ بنانے کا حکم بھی دیا گیا تھا۔ ہمارا فیصلہ بھی اسی اجتماعی تبدیلی کا ایک حصہ ہے۔ ہم نے سوچا کہ اس عمل میں ہمارا کردار کیا ہو سکتا ہے، تو اس کمیونٹی کے افراد کو اپنے ادارے کی کنٹین کا ٹھیکہ دینا ہماری طرف سے یہ عملی کوشش ہے کہ چاہے کوئی مرد ہو، عورت یا خواجہ سرا، باعزت روزگار ہر کسی کا حق ہے۔‘‘
ڈاکٹر ندیم نے بتایا کہ ان کے ادارے میں اس کمیونٹی کے چھ لوگ کام کر رہے ہیں اور اس بات کو قریب چھ ماہ ہو گئے ہیں۔ ’’آج تک ہمیں اسٹوڈنٹس کی جانب سے کوئی شکایت نہیں ملی بلکہ اچھی بات یہ ہے پہلے ہمیں کنٹین میں صفائی، ناقص خوراک اور کام کرنے والے سٹاف کے رویے سے متعلق شکایات موصول ہوتی تھیں لیکن نئے عملے کے کنٹین سنبھالنے کے بعد سے ہمارے بہت سے مسائل ختم ہو گئے ہیں۔‘‘
عملی تبدیلی رویوں اور سوچ کی تبدیلی سے آتی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں اس کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر ندیم عمر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’میں سمجھتا ہوں کہ جب تک ہمارے امیجز نہیں بدلیں گے، ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ فرض کریں کہ میری جگہ آج این سی اے کا ڈائریکٹر اگر ایک خواجہ سرا ہوتا اور آپ اس کا انٹرویو کرتیں، تو کیا اس کمیونٹی کے بارے میں آپ کے خیالات بدل نہ جاتے؟ ہمیں ایسے شہریوں کو خواجہ سرا سے پہلے ایک عام انسان سمجھنا چاہیے، جنہیں تعلیم، سماجی ترقی، صحت اور روزگار کی وہی سہولتیں ملنی چاہیئں جو باقی شہریوں کو ملتی ہیں۔‘‘
راولپنڈی این سی اے کے ڈائریکٹر کے مطابق ان کے ادارے کو وسائل کی کمی نہیں ہے، ’’ہمارا یہ پائلٹ پراجیکٹ ہے اور ہم نے یہ ایک مشن کے طور پر شروع کیا ہے تاکہ غربت میں پسی اس کمیونٹی کو باعزت روزگار ملے۔ ہمارا مقصد ان سے منافع کمانا نہیں ہے۔ پاکستان میں تعلیم کے بغیر روزگار انتہائی مشکل ہے۔ اسی لیے یہ لوگ سڑکوں پر نہ چاہتے ہوئے بھی بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔ اس کمیونٹی کے سب سے بڑے مسائل ناخواندگی اور بے روزگاری ہیں۔ ہمارے اس اقدام کو سول سوسائٹی کے ہر طبقے نے سراہا ہے اور کئی دیگر اداروں نے بھی انہیں ملازمتیں دینے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔‘‘
کنٹین پر کام کرنے والی رضوان عرف ببلی نامی ورکر نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’ہم این سی اے کے بے حد شکر گزار ہیں کہ انہوں نے ہمیں ہمارا حق دیتے ہوئے یہ باعزت موقع فراہم کیا۔ پاکستان میں یہ اپنی نوعیت کی اولین مثال ہے۔ ورنہ ہم نوکری کے لیے جہاں بھی جائیں، یا تو لوگ تعلیمی اسناد مانگتے ہیں یا انہیں یہ خیال تنگ کرتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے؟ جب کسی مرد یا عورت کو جاب دی جاتی ہے تو معاشرہ کچھ نہیں کہتا۔ لوگ ذہنی طور پر تنقید سے ڈرتے ہیں۔ یہ نہیں سوچتے کہ کیا وہ جاننا چاہیے، جو سچائی اور حق پر مبنی ہو۔‘‘
ببلی نے کہا اگر اتنی عزت پورا ملک دینے لگے تو اس کمیونٹی کو کبھی مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ انہوں نے دیگر اداروں سے بھی درخواست کی کہ وہ بھی، خاص طور پر اسکولوں اور کالجوں کے کیفے ٹیریا میں اس کمیونٹی کے افراد کو روزگار مہیا کرنے کی کوشش کریں۔
راولپنڈی کے اسی معروف تعلیمی ادارے میں بطور آفس اسسٹنٹ کام کرنے والی وینا خان کا تعلق راولپنڈی ہی سے ہے۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’میں اپنی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی پہلی ورکر ہوں جو این سی اے میں عزت کی نوکری کر کے پندرہ ہزار روپے ماہانہ کما رہی ہوں۔ میری یہ عزت کی کمائی مجھے بہت خوش رکھتی ہے۔ پہلے شادیوں وغیرہ کی تقریبات میں ڈانس کر کے میں زیادہ کما لیتی تھی۔ لیکن عزت کی روٹی تھوڑی بھی ہو تو بہتر ہوتی ہے۔‘‘
وینا خان سے جب یہ پوچھا گیا کہ قومی شناختی کارڈ کے اجرا سے اس کمیونٹی کو کیا فائدے ہوئے، تو انہوں نے کہا، ’’این آئی سی جو سپریم کورٹ کی مہربانی سے جاری کیے گئے، ہم بہت خوش تھے کہ اب ہمیں بھی پہچان ملے گی۔ لیکن درحقیقت اس کارڈ کا بھی ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اس لیے کہ جہاں بھی ہم یہ کارڈ دکھاتے ہیں، لوگ ہمارا مذاق اڑاتے ہیں۔ بطور مسلمان ہم حج اور عمرہ کرنا چاہتے ہیں، ایران اور عراق زیارتوں کے لیے جانا چاہتے ہیں۔ لیکن اس شناختی کارڈ پر درج جنس کی بنا پر ہمیں سعودی عرب، ایران یا عراق کا ویزا نہیں دیا جاتا۔ اب ہماری کمیونٹی شناختی کارڈ نہیں بنوا رہی۔ اس لیے کہ جہاں بھی ہم یہ شناختی کارڈ دکھاتے ہیں، لوگ ہمیں تضحیک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔‘‘
این سی اے کی فرسٹ ایئر کی اسٹوڈنٹ ماہ نور کا اپنے کالج کی کنٹین کی منفرد حیثیت کے بارے میں کہنا تھا کہ انہیں اور ان کے ساتھی طلبہ و طالبات کو کنٹین پر خواجہ سراؤں کا کام کرنا بہت اچھا لگتا ہے اور دیگر اداروں اور این جی اوز کو بھی ان کے روزگار کے مسائل حل کرنے کی جانب توجہ دینی چاہیے تاکہ ایسے شہری معاشرے میں گالی اور ذلت کی زندگی سے بچ سکیں اور انہیں بھی حق حاصل ہو کہ دوسروں کی طرح باعزت زندگی گزار سکیں۔
اسی موضوع پر پاکستان میں ہیجڑوں یا ٹرانس جینڈر افراد کی تنظیم شی میل رائٹس پاکستان کی چیئر پرسن الماس بوبی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ اس کمیونٹی کے افراد نے کوشش تو بہت کی لیکن جب ہم پڑھے لکھے ہی نہیں ہیں، تو ہمیں کوئی ملازمت کیوں دے گا؟ ’’اس لیے اب ہماری کمیونٹی کاروبار کر کے روزگار کمانے کی طرف متوجہ ہے۔ کیونکہ صرف ناچ گانے اور سڑکوں پر بھیک مانگنے سے گزر بسر ممکن نہیں۔ ہمارے کئی ساتھیوں نے بوتیک کا کاروبار شروع کیا ہے، اپنے درزی ہیں اور کئی افراد نے تو اپنے بیوٹی پارلر بھی کھول رکھے ہیں۔‘‘