1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سفر و سیاحتپاکستان

پاکستانی خواتین کی بیرون ملک سیاحت: ایک نیا، بڑھتا ہوا رجحان

عصمت جبیں اسلام آباد
23 جولائی 2023

پاکستان میں متوسط اور بالائی متوسط طبقے کی خواتین کا اکیلے یا اپنے بچوں کے ساتھ بیرون ملک تفریحی سفر ایک نئے سماجی رجحان کے ساتھ ساتھ سیاحتی اداروں کے لیے کاروبار کا ایک نیا کامیاب شعبہ بھی بنتا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/4UC7a
Tourismus durch alleinstehende pakistanische Frauen und Mütter mit Kindern
اسلام آباد کے بلیو ایریا میں مقامی سیاحتی کمپنی رحمان گروپ آف ٹریولز کی ایک برانچتصویر: Ismat Jabeen/DW

امیر طبقے کے باوسائل پاکستانی خاندانوں میں کسی مرد کا اپنی شریک حیات یا سبھی اہل خانہ کے ساتھ اندرون ملک یا بیرون ملک سیاحتی سفر تو کبھی بھی مسئلہ نہیں رہا۔ اس لیے کہ ان کے پاس مالی وسائل کافی ہوتے ہیں اور وہ ہر سال چھٹیاں گزارنے کے لیے کہیں نہ کہیں جاتے ہی ہیں۔ ایسے اپر کلاس گھرانوں کی خواتین کا اپنے رشتہ داروں یا دوست احباب سے ملاقاتوں کے لیے یا پھر صرف سیاحتی پہلو سے ہی شمالی امریکہ یا یورپ کا اکیلے سفر کرنا بھی عام سی بات سمجھی جاتی ہے۔

کیا پاکستان میں ماحول دوست سیاحت ممکن ہے؟

تاہم پاکستان کے متوسط طبقے کے بہت سے گھرانے، جن کے پاس بہت زیادہ مہنگائی کے دور میں وسائل کی فراوانی نہیں ہوتی، اکثر ملک کے ٹھنڈے شمالی علاقوں میں سے ہی کسی علاقے کی سیاحت کا فیصلہ کرتے ہیں اور وہ بھی ہر سال تو بالکل نہیں۔ ایسے تفریحی سفر زیادہ تر فیملی گروپ کی صورت میں کیے جاتے ہیں اور خواتین کے ساتھ ان کے شوہر یا گھر کے دیگر مرد ہوتے ہی ہیں۔

Tourismus durch alleinstehende pakistanische Frauen und Mütter mit Kindern
پاکستانی دارالحکومت میں بہت سے کاروباری ادارے سیاحتی شعبے میں کام کر رہے ہیں۔ اس تصویر میں ایرولائٹ ٹریول سروسز اور تحسین ٹریولز نامی کمپنی کے ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو واقع دفاترتصویر: Ismat Jabeen/DW

اکیلی خواتین کا مسئلہ

تفریح کے لیے سیاحت چاہے ملک کے اندر کی جائے یا کسی دوسرے ملک کی، ایسا کرنا خاص طور پر مڈل اور اپر مڈل کلاس کی ان خواتین کے لیے ہمیشہ ہی ایک مشکل فیصلہ ہوتا تھا، جن کے ہمراہ کوئی مرد نہیں ہوتا۔ ایسی خواتین یا تو غیر شادی شدہ اور زیادہ تر ملازمت پیشہ ہوتی ہیں، یا پھر ایسی مائیں جو اپنے شوہروں سے علیحدگی یا بیوگی کے بعد اکیلی ہی اپنے بچوں کی پرورش کر رہی ہوتی ہیں۔

سیاحت کے لیے پاکستان کتنی بڑی قیمت ادا کر سکتا ہے؟

پاکستانی معاشرہ روایتی طور پر ایک قدامت پسند اور پدر شاہی معاشرہ ہے اور اس ملک کو گزشتہ چند برسوں سے شدید مالیاتی اور اقتصادی بحران کا سامنا بھی ہے۔ ایسے میں اپنی آمدنی میں سے بچت کر کے سفر کے لیے کافی رقوم جمع کرنا، پھر عمومی سماجی رویوں کے برعکس اکیلے یا صرف اپنے بچوں کے ساتھ سیاحت پر نکلنا، اور پھر اس سارے عمل کا آخر تک محفوظ اور خوشگوار بھی رہنا، یہ سب کچھ پہلے مشکل ہوتا تھا مگر اب آسان ہوتا اور ایک نیا رجحان بنتا جا رہا ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسی پاکستانی خواتین کی اکیلے یا اپنے بچوں کے ساتھ غیر ملکی سیاحت کی خواہش کو ملکی سیاحتی کمپنیوں نے ایک ایسے ذیلی شعبے کے طور پر پہچان لیا ہے، جو مسلسل پھیلتا جا رہا ہے اور توقع ہے کہ آئندہ برسوں میں بہت ترقی کرے گا۔

خواتین کی سیاحتی کمپنیاں

اسلام آباد کی گارڈن کالونی کی رہائشی نائلہ خان ٹریول اینڈ ٹور کے بزنس سے منسلک ہیں۔ وہ پانچ سال تک ایک بڑی کمپنی کے ساتھ بطور ڈومیسٹک ٹور ایگزیکٹیو کام کرتی رہیں۔ پھر تین برس قبل انہوں نے اپنی ایک کمپنی 'خانہ بدوش ٹریولرز‘ کے نام سے رجسٹر کروا لی۔ ان کے اہتمام کردہ زیادہ تر ٹور پرائیویٹ ہی ہوتے ہیں۔ وہ مختلف ٹور آپریٹرز کے ساتھ مل کر کام کرتی ہیں، جس میں نام اگر کسی دوسری کمپنی کا بھی ہو، تو بھی عملاﹰ ساری سروسز ان کی اپنی ہی ہوتی ہے۔

Tourismus durch alleinstehende pakistanische Frauen und Mütter mit Kindern
ناران کاغان کا ایک ہفتے کا دورہ بہت کامیاب رہا، حوریا طارقتصویر: Ismat Jabeen/DW

نائلہ خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میں ٹور آپریٹرز کے ساتھ کام کرتی ہوں۔ لیکن گراؤنڈ ہینڈلنگ سب میری اپنی ہوتی ہے۔ میں مہینے میں دو ایک بار صرف خواتین اور بچوں کے لیے مری اور گلیات وغیرہ کے دوروں کا اہتمام ضرور کرتی ہوں۔"

لیکن کیا ان کے پاس ان جملہ انتظامات کے لیے کوئی بڑی ٹیم موجود ہے؟ اس کے جواب میں نائلہ خان نے کہا، ''بنیادی طور پر یہ ون پرسن شو ہے۔ ایڈورٹائزنگ، ریزرویشن، ہوٹل بکنک، گاڑی، ڈرائیور وغیرہ، میں ہی سب کچھ کر رہی ہوتی ہوں۔ ایسی خواتین جو اپنے بچوں کی اکیلے پرورش کر رہی ہوتی ہیں اور اپنے بچوں کے ساتھ ایک آدھ ہفتے کے لیے کہیں سیاحت کے لیے جانا چاہتی ہیں، میں ان کو قابل بھروسہ ڈرائیور، ہوٹل بکنگ اوردیگرسفری سہولیات دینے کے ساتھ ساتھ خود بھی چوبیس گھنٹے فون پر موجود ہوتی ہوں تاکہ اگر ان کو کسی قسم کا کوئی مسئلہ پیش آئے، تو اسے حل کر سکوں۔‘‘

نائلہ خان کے مطابق وہ زیادہ سستے ہوٹل میں کبھی بکنگ نہیں کرتیں۔ وہ کم از کم بھی آٹھ نو ہزار روپے فی رات والا ہوٹل بک کرتی ہیں تاکہ ان کے کسٹمرز کو بہتر سہولیات مل سکیں۔ ان کے مطابق ایک ہفتے کا سکردو ہنزہ کا زمینی راستے سے سفر والا پیکج تقریباﹰ ڈیڑھ لاکھ روپے فی کس بنتا ہے، لیکن اگر قیام شنگریلا جیسے کسی ہوٹل میں کیا جائے، تو بجٹ خاصا زیادہ ہو جاتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جون سے پندرہ ستمبر تک جب سیاحتی سیزن عروج پر ہوتا ہے، زیادہ تر ملکی سیاح ناران جانا چاہتے ہیں۔

Tourismus durch alleinstehende pakistanische Frauen und Mütter mit Kindern
انٹرنیشنل ٹور اگر کافی دیر پہلے بک کروا لیے جائیں تو وہ کافی کم قیمت ہو جاتے ہیں، شگفتہ اسدتصویر: Ismat Jabeen/DW

چھ سالہ بیٹی کے ہمراہ ایک ماں کا سیاحتی تجربہ

اسلام آباد کے سیکٹر ڈی ایچ اے ون کی رہائشی رائمہ بتول نے بھی نائلہ خان کی کمپنی کی خدمات استعمال کیں۔ ان کو'خانہ بدوش ٹریولرز‘ کے ساتھ کیا گیا مری کا ایک روزہ دورہ بہت پسند آیا۔ ان کے مطابق اپنی چھ سالہ بیٹی کے ساتھ یہ سفر کرنا ان کا خواب تھا مگر اکیلے جانا اور وہ بھی کم لاگت کے ساتھ، یہ ممکن نہیں لگتا تھا۔

’پاکستان کے لوگوں نے میرا دل موہ لیا‘

رائمہ بتول نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''مجھے انٹرنیٹ سے پتہ چلا کہ کچھ گروپ مل کر سیاحت کرتے ہیں۔ مجھے مری کی ایک دن کی سیر ساڑھے چار ہزار روپے میں پڑی: تین ہزار روپے میرے اور پندرہ سو روپے میری بیٹی کے سفر کی لاگت۔ اس گروپ میں زیادہ تر میری طرح سنگل مدرز تھیں، ٹور کے دوران یوگا کا ایک سیشن بھی ہوا۔ کھانا پینا بھی ایک اچھے ریسٹورنٹ میں، مگر پیکج ہی کا حصہ تھا۔ اس گروپ میں شامل خواتین نے آپس میں خوب گپ شپ کی۔ میری کچھ نئی دوست بھی بن گئیں اور میری بیٹی نے بھی اس گروپ میں شامل دیگر بچوں کے ساتھ مل کر اس سفر سے خوب لطف اٹھایا۔‘‘

اسلام آباد ہی کی ایک تیس سالہ رہائشی حوریا طارق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''دو ہفتے پہلے ہم گیارہ دوستوں نے مل کر ٹور آپریٹر کے ذریعے ناران کاغان کا ایک ہفتے کا ٹور بنایا، جو بتیس ہزار روپے فی کس میں پڑا۔ اس میں گاڑی بمع پٹرول اور ڈرائیور، اس کے علاوہ اچھے ہوٹلوں کی بکنگ، مختلف سیاحتی مقامات کی سیر، سبھی کچھ شامل تھا لیکن کھانا پینا نہیں۔ یہ تجربہ بہت اچھا رہا۔ ہم نے خوب سیر کی۔ اب ہم سب دوست جلد ہی ملائشیا جانے کا پروگرام بنا رہے ہیں۔‘‘

سستے ٹور پیکجز

بحریہ ٹاؤن کے رہائشی سبیل احمد بھی سیاحت کے شوقین ہیں۔ امریکہ، کینڈا، یورپ اور متحدہ عرب امارات کے سفر کر چکے ہیں۔ اپنے اسی شوق کو روزگار کا ذریعہ بنانے والے سبیل احمد اب سستے ٹور پیکجز بنا کر دینے کے ماہر ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میں نے اپنی کمپنی اس لیے رجسٹر نہیں کرائی کہ ٹیکس اور کئی دیگر مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ خاصی تعداد میں لوگ مجھ سے سیاحتی پیکجز بنواتے ہیں، جو میں بہت کم شرح منافع پر بنا دیتا ہوں۔ زیادہ منافع تو بڑی بڑی سیاحتی کمپنیاں کماتی ہیں۔‘‘

سوات وادی میں سفید محل سیاحوں کے لیے جنت

سبیل احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ کسٹمر کی خواہش کے مطابق بہت سستا یا کافی مہنگا پیکج بنا کر دیتے ہیں، '' عموماﹰ کسٹمر کہتے ہیں کہ ان کے پاس دو لاکھ روپے فی کس تک ہیں، جس میں باہر کا کوئی ٹور بنا دوں۔ تو میں انہیں پانچ دن کا دبئی، تھائی لینڈ یا شرم الشیخ کا ٹور بنا دیتا ہوں۔ کچھ دیگر ممالک کا ایسا ہی ٹور ڈھائی لاکھ روپے تک میں ممکن ہوتا ہے۔ اس میں ڈالر کے قیمت بھی بہت اہم ہوتی ہے۔ اگر ڈالر مہنگا ہو تو ٹور بھی مہنگا، ورنہ سستا۔‘‘

جرمن سیاحت کے شوقین کیوں ہیں؟

راولپنڈی کی رہنے والی نمرہ خالد کہتی ہیں کہ ان کہ شادی ہوئی لیکن بچے نہ ہونے کی وجہ سے یہ شادی چل نہ سکی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''مجھے گھومنے پھرنے کا بہت شوق ہے۔ امریکہ، کینیڈا دیکھنے کے بعد اب یورپ گھومنے کا ارادہ ہے۔ باوسائل ماں باپ کی اکلوتی اولاد ہونے کی وجہ سے میں معاشی مشکلات کا شکار تو نہ ہوئی، لیکن اکیلے سفر کرنا مشکل ضرور ہے۔ خیر اب ٹور آپریٹرز کی وجہ سے بہت آسانی ہو گئی ہے۔ ادھر رقم جمع کروائیں، ادھر ویزا، ٹکٹ اور ہوٹل کی بکنگ سب کچھ ہو جاتا ہے۔‘‘

بہت پہلے بکنگ کم قیمت

کئی برس قبل مختلف فضائی کمپنیوں کے ساتھ منسلک رہنے والی شگفتہ اسد کہتی ہیں کہ پہلے جب انٹرنیٹ کی سہولت اتنی عام نہیں تھی، فضائی سفر زیادہ تر ای میلز اور فون کالز کے ذریعے بک  کیے جاتے تھے۔ اب تو اگر کسی کے پاس دو چار ٹور آپریٹرز اور متعلقہ افراد کے رابطے ہوں، تو اس بزنس کو چلانا کوئی مشکل کام نہیں۔ کئی کمپنیوں کے ساتھ مل کر بہت اچھے سیاحتی پیکج بنائے جا سکتے ہیں اور وہ بنائے بھی جا رہے ہیں۔

جرمنی: برلن کے سیاحتی میلے میں سجا بلوچستان کا خصوصی پویلین

شگفتہ اسد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''چونکہ خواتین کے لیے تفریح کا سامان ہمارے ہاں قدرے کم ہے، تو میں خاص طور سے ان کے لیے سکردو، ہنزہ، گلگت اور کاغان ناران کے اسپیشل پیکجز آفر کرتی ہوں۔ ابھی حال ہی میں تیس خواتین ٹیچرز کے ایک گروپ کے لیے پندرہ ہزار فی کس پر ٹور بک کیا تھا، جبکہ انٹرنیشنل سیاحوں کے لیے یہی پیکج پانچ سو امریکی ڈالر فی کس کے حساب سے بنا کر دیا۔ بیرون ملک سفر کی خواہاں زیادہ تر خواتین آج کل  فرانس، اٹلی، تھائی لینڈ، ملائشیا اور مصر کے لیے پیکجز طلب کرتی ہیں۔‘‘

تنہا سفر کرنے کا تیزی سے مقبولیت حاصل کرتا رجحان

شگفتہ اسد اب پاکستان سے دبئی شفٹ ہو چکی ہیں اور وہیں سے اپنا پرائیویٹ بزنس جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ باقی تمام چیزوں کی طرح اب سفر اور سیاحت بھی بہت مہنگے ہو چکے ہیں، لیکن انٹرنیشنل ٹور اگر کافی دیر پہلے ہی بک کروا لیے جائیں، تو قیمتیں کافی کم ہو جاتی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ بیرون ملک سیاحت کے خواہش مند پاکستانیوں کے لیے ویزے کی بکنگ جیسے کام کافی مشکل اور پیچیدہ مرحلہ ثابت ہوتے ہیں۔ پھر بھی پاکستانیوں کی بڑی تعداد اب تھائی لینڈ، مصر، متحدہ عرب امارات اور مختلف یورپی ممالک کے سیاحتی سفر کرنے لگی ہے۔

جرمنی سے پاکستان تک موٹر سائیکل پر سفر