1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حکمران اتحاد میں اختلافات: ’اتحاد و انتشار مفادات کے لیے‘

عبدالستار، اسلام آباد
11 جولائی 2023

اسلام آباد میں حکمران اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں شدید داخلی اختلافات کی خبریں پھر گرم ہیں۔ دعوے کیے جا رہے ہیں کہ اتحاد کے صدر مولانا فضل الرحمان پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن پر برہم ہیں۔

https://p.dw.com/p/4Tj8I
Pakistan | Mian Muhammad Shahbaz Sharif
سامنے، دائیں سے بائیں: جے یو آئی ایف کے مولانا فضل الرحمان کے بیٹے مولانا اسدالرحمان، مسلم لیگ ن کے رہنما اور ملکی وزیر اعظم شہباز شریف (درمیان میں) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداریتصویر: Anjum Naveed/AP Photo/picture alliance

سابق وزیر اعظم عمران خان کی مخالف پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ اور اس کی اتحادی پاکستان پیپلز پارٹی اختلافات کی زد میں نظر آتے ہیں اور خیال کیا جا رہا ہے کہ اس اتحاد کے صدر مولانا فضل الرحمان ن لیگ اور پی پی پی سے مستقبل میں شراکت اقتدار کے فارمولے کے معاملے میں سخت خفا ہیں۔

Maulana Fazlur Rehman | Mitglied der pakistanischen Nationalversammlung
جے یو آئی (ایف) کے رہنما مولانا فضل الرحمانتصویر: Rizwan Tabassum/AFP/Getty Images

پی ڈی ایم میں ان داخلی اختلافات کے حوالے سے ملک کے کئی حلقوں میں بحث جاری ہے اور ناقدین کا خیال ہے کہ پاکستان میں سیاسی اتحاد اور انتشار کا بنیادی نکتہ اقتدار کا حصول یا ذاتی مفادات ہی ہوتے ہیں۔

پی ڈی ایم میں ’مال غنیمت‘ پر جھگڑے

کچھ دن پہلے مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے ایک اہم ملاقات دبئی میں کی تھی، جس کے حوالے سے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ انہیں اس ملاقات کے بارے میں اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔

مولانا فضل الرحمان کے اس شکوے کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف نے ان سے ملاقات بھی کی تھی۔ تاہم کئی حلقوں کی رائے میں یہ اختلافات اب بھی موجود ہیں۔

مطالبہ سیاسی حیثیت سے زیادہ

پاکستان میں کئی سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ مولانا فضل الرحمان اپنی سیاسی حیثیت سے زیادہ شراکت اقتدار کا دعویٰ کرتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ جس اتحاد میں بھی ہوتے ہیں، اس میں مسائل ہی پیدا ہوتے ہیں۔ مبصرین کے مطابق موجودہ اختلافات کا تعلق بھی ملک میں مستقبل کے سیاسی منظر نامے اور شراکت اقتدار کے فارمولے سے متعلق ہے۔

ڈولتی معیشت پاکستان کو دیوالیہ کا شکار بھی کر سکتی تھی

سیاسی مبصر الطاف بشارت کا دعویٰ ہے کہ مولانا فضل الرحمان مستقبل کی حکومت میں نہ صرف اپنی پارٹی کے لیے اہم عہدوں کا مطالبہ کر رہے ہیں بلکہ وہ قومی اسمبلی کی بہت سی نشستوں پر انتخاب سے متعلق بھی اتحادیوں سے حمایت کے طلب گار ہیں۔

الطاف بشارت نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میری اطلاعات کے مطابق نہ صرف چیئرمین سینٹ کی نشست کا مطالبہ کیا جا رہا ہے بلکہ فضل الرحمان کی جماعت جے یو آئی (ایف) ممکنہ طور پر کرسی صدارت پر بھی نظریں لگائے بیٹھی ہے۔ اس کے علاوہ قومی اسمبلی کی بہت سی نشستوں پر بھی جے یو آئی (ایف) چاہتی ہے کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ اس کی حمایت کرے۔‘‘

معاشی کمیٹیوں میں فوجی افسران کی شمولیت تنقید کی زد میں

الطاف بشارت کے مطابق مولانا فضل الرحمان ہمیشہ اپنی سیاسی حیثیت سے زیادہ شراکت اقتدار کا مطالبہ کرتے ہیں اور اس کوشش میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔ ''جب پاکستان پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم چھوڑی، تو مولانا فضل الرحمان نے اس وقت بھی اپنا ایک سینیٹر بنوا لیا تھا۔ اب بھی اسی طرح کا تاثر ہے کہ جے یو آئی (ایف) کرسی صدارت میں دلچسپی رکھتی ہے لیکن پی پی پی اور مسلم لیگ ن کسی صورت بھی ملکی صدر کا عہدہ اس پارٹی کو نہیں دے گی۔‘‘

ماضی کی مثال

پاکستانی سیاست اور سیاسی جماعتوں پر گہری نظر رکھنے والے سابق سینیٹر افراسیاب خٹک بھی الطاف بشارت کی سوچ سے اتفاق کرتے نظر آتے ہیں کہ جمعیت علماء اسلام (ف) ہمیشہ اپنی سیاسی حیثیت سے زیادہ حد تک شراکت اقتدار کی طالب ہوتی ہے۔

پاکستان، سیلاب گزر گیا لیکن مشکلات نہ ٹلیں

افراسیاب خٹک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ صرف مولانا فضل الرحمان ہی کے دور کی بات نہیں بلکہ انیس سو ستر کی دہائی میں ان کے والد مولانا مفتی محمود کی اس وقت کی پختونخوا اسمبلی میں صرف تین سیٹیں تھیں لیکن پھر بھی جمعیت علماء اسلام کی طرف سے یہ مطالبہ آیا تھا کہ وزیر اعلیٰ اسی جماعت کا بنایا جائے اور ایسا ہو بھی گیا تھا۔‘‘

نہ ختم ہونے والے مطالبات

مولانا فضل الرحمان کے حوالے سے خیال کیا جاتا ہے کہ ان کے مطالبات کی ایک طویل فہرست ہوتی ہے۔ عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے بعد بھی جے یو آئی ایف نے کئی اہم وزارتیں لیں اور صوبے خیبر پختونخوا پر بھی اپنی گرفت مضبوط کرنے کی کوشش کی، جس کی وجہ سے اس مذہبی سیاسی پارٹی کے عوامی نیشنل پارٹی سے اختلافات بھی بڑھ رہے ہیں۔

حکومتی ترقیاتی منصوبے سب کے لیے یا صرف اتحادیوں پر نوازشات؟

افراسیاب خٹک کا کہنا تھا کہ نوے کی دہائی میں بے نظیر بھٹو کے دور اقتدار میں جب جمعیت علماء اسلام پاکستان پیپلز پارٹی کی حمایتی تھی، تو مولانا فضل الرحمان نے بے نظیر بھٹو سے شکایت کی تھی کہ ان کے مطالبات پورے نہیں کیے جا رہے تھے۔ ''بے نظیر بھٹو نے نصیر اللہ بابر سے اس حوالے سے دریافت کیا۔ نصیر اللہ بابر کا تب جواب تھا کہ بی بی، اگر کوئی کنواں ہو تو ہم اسے بھر دیں، یہاں تو مطالبات کا ایک سمندر ہے۔ اس کو کیسے بھرا جا سکتا ہے؟‘‘

بدترین کریک ڈاؤن کا سامنا ہے، عمران خان

اتحاد اور مفادات

پاکستان دہشت گردی، مہنگائی، غربت اور بے روزگاری سمیت کئی طرح کے مسائل سے دوچار ہے لیکن عام تاثر یہ ہے کہ حکمران سیاسی اتحاد غیر ضروری مسائل پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ افراسیاب خٹک کے مطابق یہ افسوس کی بات ہے کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ شراکت اقتدار اور دوسری غیر عوامی مسائل پر توجہ دے رہی ہے۔

پی ڈی ایم کا احتجاج: عدلیہ پر اثر انداز ہونے کی کوشش

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’صوبے کے پی میں دہشت گردی کا ناسور ایک بار پھر سر اٹھا رہا ہے۔ ضلع کرم میں خوفناک لڑائی چل رہی ہے لیکن کسی کی اس طرف توجہ نہیں۔ اس سے عوام میں یہ تاثر جاتا ہے کہ سیاسی جماعتیں صرف جوڑ توڑ اور اپنے اپنے مفادات کے لیے اتحاد بناتی ہیں۔ پھر جب یہ مفادات پورے ہو جاتے ہیں، تو انہی جماعتوں کے رہنما آپس میں لڑنا شروع کر دیتے ہیں۔‘‘

عوام میں مایوسی 

سیاسی تجزیہ نگار ڈاکٹر توصیف احمد خان کا اس بارے میں کراچی سے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پی ڈی ایم میں اختلافات سے عوام میں مایوسی پھیل رہی ہے۔ انہوں نے کہا، ''عوام میں تاثر یہ جاتا ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کے لیے جمع ہوتی ہیں لیکن عوامی مسائل جیسا کہ مہنگائی، غربت، بھوک اور بے روزگاری وغیرہ سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔‘‘

کیا دھرنے سے چیف جسٹس آف پاکستان کو ہٹایا جا سکتا ہے؟

جمعیت کی طرف سے تردید

جمعیت علماء اسلام اس بات کی سختی سے تردید کرتی ہے کہ اس نے مستقبل میں شراکت اقتدار کے حوالے سے کسی بھی طرح کا کوئی مطالبہ کیا ہے۔ اس پارٹی کے اسلام اباد سے تعلق رکھنے والے ایک رہنما عبدالمجید ہزاروی کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے دبئی میٹنگ کے حوالے سے اصولی موقف اختیار کیا تھا۔

پاکستانی فوج کے ترجمان کی پریس کانفرنس: ’اشارے سخت ہیں‘

عبدالمجید ہزاروی نے ڈبلیو کو بتایا، ''مولانا فضل الرحمان نے صرف یہ بات کہی تھی کہ اخلاقی طور مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کو یہ چاہیے تھا کہ وہ مولانا کو دبئی میں ملاقات کے حوالے سے اعتماد میں لیتیں۔ اب جب کہ مولانا کی وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات ہو گئی ہے، تو تقریباﹰ تمام معاملات طے ہو گئے ہیں۔‘‘

عبدالمجید ہزاروی نے اس بات کی سختی سے تردید کی کہ شراکت اقتدار کے حوالے سے جے یو آئی (ایف) نے کوئی بھی بات کی ہے۔ ان کے بقول، ''ہم نے مستقبل میں نہ سینیٹ کی چیئرمین شپ مانگی ہے اور نہ ہی زیادہ نشستوں یا وزارتوں کا مطالبہ کیا ہے۔‘‘