1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی بچوں کے جنسی استحصال کے خلاف ایپ: ’میرا بچہ الرٹ‘

2 اکتوبر 2019

پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے ملک میں بچوں کے جنسی استحصال کے خلاف ’میرا بچہ الرٹ‘ نامی ایک نئی موبائل فون ایپ کی تیاری کا حکم دے دیا ہے۔ اس ایپ کے ذریعے متاثرہ والدین پولیس کو ایسے جرائم کی آن لائن اطلاع دے سکیں گے۔

https://p.dw.com/p/3Qdhp
تصویر: picture-alliance/dpa/Keystone USA Falkenberg

ملکی دارالحکومت اسلام آباد سے بدھ دو اکتوبر کو موصولہ نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے اس ایپ کی تیاری کا حکم بچوں کے جنسی استحصال کے ان متعدد حالیہ واقعات کے بعد دیا، جن پر اس جنوبی ایشیائی ملک میں عوام کی طرف سے شدید غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا تھا۔ اس اسمارٹ فون ایپلیکیشن کا مقصد متاثرہ بچوں کے والدین کی طرف سے پولیس کو اطلاع دیے جانے کے عمل کو فوری، محفوظ اور آسان تر بنانا ہے۔

ڈی پی اے نے لکھا ہے کہ عمران خان کی طرف سے یہ حکم اس حالیہ واقعے کے پس منظر میں دیا گیا ہے، جس میں پولیس نے ایک ایسے شخص کو گرفتار کر لیا تھا، جس نے صوبہ پنجاب کے ضلع قصور میں چار نوجوان لڑکوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر دیا تھا۔

ان چاروں لڑکوں کے اغواء، ریپ اور پھر قتل کے واقعات گزشتہ ماہ اسی ضلع قصور میں پیش آئے تھے، جہاں گزشتہ برس ایک سات سالہ بچی زینب کو بھی ریپ کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔ زینب کا قتل پاکستان کے علاوہ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ تک میں سرخیوں کا موضوع بنا تھا اور اس جرم کی وجہ سے پورا پاکستانی معاشرہ سکتے میں آ گیا تھا۔

Pakistan Festnahmen im Skandal um Kindesmissbrauch
2015ء کے قصور کے چائلڈ سیکس ویڈیوز اسکینڈل میں ملوث گروہ کے ارکان جنہیں گرفتار کر لیا گیا تھاتصویر: Getty Images/AFP/A. Ali

ذاتی طور پر تھانے جانا ضروری نہیں ہو گا

پاکستانی وزیر اعظم کے دفتر کی طرف سے اسلام آباد میں جاری کردہ ایک بیان کے مطابق اس نئی ایپ کا نام 'میرا بچہ الرٹ‘ ہو گا اور اس کے ذریعے کسی بھی متاثرہ بچے یا بچی کے والدین اب تک مروجہ عشروں پرانے نظام سے بچتے ہوئے حکام کو ایسے جرائم کی فوری اطلاع دے سکیں گے۔

تاحال مروجہ نظام کے تحت کسی بھی شہری کو ایسے کسی جرم کی اطلاع دینے کے لیے ذاتی طور پر متعلقہ تھانے میں جانا ہوتا ہے۔ لیکن اس نظام کا ایک نقصان بھی ہے۔

جنسی جرائم اور جنسی استحصال کا نشانہ بننے والے بہت سے بچوں کے والدین، خاص طور پر دیہی علاقوں کے باشندے اور چھوٹی چھوٹی سماجی برادریوں کے ارکان پولیس کو ایسے جرائم کی اطلاع دیتے ہوئے اس لیے ہچکچاتے ہیں کہ انہیں اپنی اور اپنے خاندان کی شرمندگی اور سماجی بدنامی کا خوف لاحق رہتا ہے۔

سارے صوبوں میں فوری اطلاع

’میرا بچہ الرٹ‘ نامی ایپ کے بارے میں پاکستانی وزیر اعظم کے دفتر کی طرف سے کہا گیا ہے کہ اس نئے آن لائن طریقہ کار سے پولیس کو ایسے جرائم کی اطلاع دینے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا جا سکے گا۔

بیان کے مطابق، ''اس ایپ کی مدد سے پاکستان کے سارے صوبوں کے حکام کو فوری اطلاع مل جایا کرے گی اور ساتھ ہی متعلقہ بچوں اور ان کی والدین کی سلامتی کو بھی یقینی بنایا جا سکے گا۔‘‘ عمران خان کے دفتر کے ایک ترجمان نے بدھ کے روز ڈی پی اے کو بتایا، ''وزیر اعظم نے حکم دیا ہے کہ اس ایپ کی تیاری کا کام دو ہفتوں کے اندر اندر مکمل کر لیا جائے۔‘‘

Protest in Karachi nach der Ermordung der siebenjährigen Zainab
تصویر: Faria Sahar

پاکستانی بچوں کے خلاف جنسی جرائم کے پریشان کن اعداد و شمار

پاکستان میں بچوں کی فلاح اور تحفظ کے لیے سرگرم ایک سرکردہ غیر سرکاری تنظیم 'ساحل‘ کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس ملک بھر میں بچوں کے اغواء اور ان کے ریپ کے کم از کم بھی 3,832 واقعات رپورٹ کیے گئے تھے۔ ان میں سے 55 فیصد جرائم کا نشانہ کم عمر لڑکیاں بنی تھیں۔

2015ء میں پاکستانی صوبہ پنجاب کا شہر قصور اس وقت بھی عالمی سطح پر سرخیوں کا موضوع بنا تھا، جب ایسی سینکڑوں ویڈیوز کا پتہ چلا تھا، جن میں بچوں سے کی جانے والی جنسی زیادتیاں اور ان کے جنسی استحصال کے واقعات ریکارڈ کیے گئے تھے۔

بعد میں پولیس نے ایسے جرائم میں ملوث ایک گروپ کے کئی ارکان کو گرفتار بھی کر لیا تھا۔ یہ مجرم ایسے عناصر تھے، جو ایسی ویڈیوز کو یورپ میں چائلڈ پورنوگرافی کی ویب سائٹس کو فروخت کرتے تھے۔

م م / ع ا (ڈی پی اے)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں