1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہافریقہ

پانی کی قلت کے ساتھ جینا سیکھیں

29 مئی 2022

دنیا بھر کے خطوں کو خشک سالی اور پانی کی کمی کا سامنا ہے، یہاں تک کہ جہاں کبھی بارش بکثرت ہوتی تھی وہاں بھی خشک سالی ہے اور یہ صورتحال اس سیارے کے گرم ہونے کے ساتھ ساتھ مزید خراب ہوتی جائے گی۔

https://p.dw.com/p/4BsvQ
Wasserknappheit auf der Krim
تصویر: Alexei Pavlishak/TASS/picture alliance

2018 ء میں جنوبی افریقہ کے بندرگاہی شہر کیپ ٹاؤن میں پانی کے قریب تمام نلکے خشک ہو چُکے تھے۔ تب یہ  پانی کی شدید قلت سے دوچار دنیا کا دوسرا بڑا شہر بن گیا تھا۔ یہ مسئلہ اب بھی پایا جاتا ہے۔ اس سال 'نیلسن منڈیلا بے‘ سے 750 کلومیٹر مشرق کی جانب آباد برادریوں کو جولائی تک اپنے آبی ذخائر خشک ملیں گے۔

کیپ ٹاؤن انتظامیہ نے اس 'ڈے زیرو‘ سے بچنے کے لیے پانی کے استعمال سے متعلق سخت اقدامات کیے ہیں۔ سٹی انتظامیہ نے پانی کے استعمال کے نرخوں اور جرمانوں میں اضافہ کر دیا ہے نیز زرعی شعبے کے ساتھ مل کر پانی کی کھپت کم کرنے اور مٹی کی نمی کو برقرار رکھنے کے لیے زرعی شعبے کے ساتھ مل کر کام کیا ہے۔ اس علاقے کے رہائشی صرف 50 لٹر یا 13 گیلن پانی کی یومیہ کھپت کی حد برقرار رکھیں گے۔ یاد رہے کہ لانڈری کی ایک کھیپ تقریباً 70 لیٹر تک پانی کا استعمال کر سکتی ہے۔

حیاتیاتی تنوع، نیچر اور ہیلتھ کی ایک ماہر انگریڈ کوئٹسے کیپ ٹاؤن میں آباد ہیں۔ یہ ایسے کٹھن وقتوں کا مقابلہ کرچُکی ہیں۔ ڈوئچے ویلے کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ''مجھے یاد ہے کہ پانی کی روزانہ کی کھپت کو محدود کرتے ہوئے اور سخت پابندیوں کے ساتھ زندگی گزارنا کتنا مشکل تھا۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں عوامی آگہی کی ایک وسیع مہم چلائی گئی۔ لوگوں سے کہا گیا کہ وہ پانی کے استعمال والی سرگرمیوں جیسا کہ کپڑے یا گاڑیاں دھونے کے عمل میں کمی لائیں یا ممکن ہو تو اس عمل کو بند کر دیں، نہانے کے عمل کو بھی کم کردیں یہاں تک کہ شاور یا نہانے میں استعمال ہونے والے پانی کو فلش کے لیے استعمال کریں۔ انگریڈ کا مزید کہنا تھا، ''بہت سے مکان مالکان، خاص طور پر وہ لوگ جو اس کی استطاعت رکھتے تھے، بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے والے ٹینک لگوائیں گے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت کے پاس وہ آسائشیں میسر نہیں تھیں اور وہ واقعی پانی کی قلت کے خلاف جدوجہد کرتے رہے۔‘‘

 

Irak | Wasserkrise
خشک سالی کے شکار جانوروں کی بھی بُری حالتتصویر: Daniela Sala

قدرت سے رجوع

پانی کی قلت جیسے مسائل کے حل کے لیے قدرت کے رحم و کرم پر رہنا فطری عمل ہے۔  انگریڈ کوئٹسے کا کہنا ہے کہ اس شہر نے پانی کی فراہمی میں اضافہ کرنے کے طریقے بھی تلاش کیے ہیں تاکہ عوامی ایجنسیوں، نجی اور مقامی کمپنیوں اور مقامی برادریوں کے ساتھ مل کر بارش کے اکٹھے ہونے والے پانی کو جمع کرنے کا اہم کام انجام دیا جائے۔ ان کا کہنا تھا، ''شہری علاقوں میں پھیلنے والے جنگلی پودوں کو ہٹانے اور ان علاقوں کو صاف اور بحال کرنے کے لیے قدرتی یا فطرت پر مبنی حل ہی بہترین، کفایتی اور مؤثر اقدامات ثابت ہوئے۔‘‘

اس سلسلے میں کام کرنے والی ڈھائی ہزار مقامی اور علاقائی حکومتوں کی ایک ایسوسی ایشن قائم کی گئی ہے۔ پائن اور یوکلپٹس جیسی انواع مقامی جھاڑیوں سے کہیں زیادہ پانی جذب کرتی ہیں اور اس طرح شہر کی پانی کی فراہمی کو محدود کردیتی ہیں۔


افریقہ اور یورپ میں پانی کی ری سائیکلنگ

جب پانی کے متبادل ذرائع کی تلاش کی بات کی جائے تو نمیبیا جیسا بنجر ملک بہت گہرا تجربہ رکھتا ہے۔ نمیبیا کے دارالحکومت ونڈہوک میں 1968ء میں دنیا کا پہلا ری سائیکلنگ پلانٹ نصب کیا گیا تھا۔ اس کا کمال یہ تھا کہ 10 مرحلوں سے گزر کر سیوریج کا پانی صاف پانی میں تبدیل ہوجاتا تھا۔ اس پلانٹ میں ڈس انفیکشن اور فلٹریشن کی کئی پرتیں موجود ہیں۔ اس سلسلے میں گورنگاب واٹر ریکلیمیشن پلانٹ کو 2002 ء میں اپ گریڈ کیا گیا تھا جس کے بعد سے یہ پلانٹ پانی کی قابل بھروسہ فراہمی جاری رکھے ہوئے ہے۔

EcoAfrika
ری سائیکلنگ پانی کی کمی کو دور کرنے میں مدد گارتصویر: DW

مشرق وسطیٰ، بحیرہ روم اور جنوبی ایشیا جیسے خطوں کے خشک موسموں میں پانی کی ری سائیکلنگ اور صاف کرنے کا رواج  پہلے سے ہی عام ہے۔ لیکن شمالی یورپ میں ایسا نہیں، جہاں ممالک کو اب تک اپنے پانی کی فراہمی کے بارے میں واقعی فکر نہیں کرنا پڑی۔ بیلجیم اور نیدرلینڈز انٹورپ اور دی ہیگ میں ایسے منصوبوں پر غور کیا جا رہا ہے جو غیر روایتی ذرائع سے پینے کے قابل پانی پیدا کریں گے ۔ اینٹورپ کی بندرگاہ میں ایک پلانٹ، جو 2024ء میں کام  شروع کرنے والا ہے، کھارے پانی اور گندے پانی کو قریبی صنعتی مقامات پر استعمال کرنے کے قال بنائے گا۔ بندرگاہوں کی طرف سے تازہ پینے کے پانی کے استعمال کو تقریباً 95 فیصد تک کم کرکے، اس سے کئی سالوں کے خشک سالی جیسے حالات اور خطے کی پانی کی فراہمی پر دباؤ کو کم کرنے کی اُمید کی جا رہی ہے۔

کیوبلر مارٹن (ک م/ا ب ا)