1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پانچ مسلم ممالک سے آنے والوں پر سفری پابندیاں، ’ٹرمپ کی فتح‘

27 جون 2018

امریکی سپریم کورٹ نے پانچ مسلم اکثریتی ممالک کے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر صدر ٹرمپ کی عائد کردہ سفری پابندیوں کو درست قرار دے دیا ہے۔ اس عدالتی فیصلے کو ڈونلڈ ٹرمپ کی ایک ’بڑی قانونی فتح‘ قرار دیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/30O9F
تصویر: Getty Images/S. Olson

امریکی دارالحکومت واشنگٹن سے موصولہ نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق ملکی سپریم کورٹ نے منگل چھبیس جون کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس فیصلے کو درست قرار دے دیا، جس کے تحت انہوں نے اکثریتی طور پر مسلم آبادی والے پانچ ممالک کے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی لگا دی تھی۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق صدر ٹرمپ نے یہ سفری پابندیاں، جنہیں مختصراﹰ ’ٹرمپ ٹریول بین‘ بھی کہا جاتا ہے، صدارتی منصب سنبھالنے کے کچھ ہی عرصے بعد لگائی تھیں اور اس فیصلے کے بعد شروع ہونے والی طویل قانونی جنگ ایک خاصا صبر آزما مرحلہ بن چکی تھی۔

اب اس مقدمے میں امریکی سپریم کورٹ نے اپنا جو فیصلہ سنایا ہے، اسے ڈونلڈ ٹرمپ کی ایک ’بڑی عدالتی فتح‘ کا نام بھی دیا جا رہا ہے۔ اس مقدمے میں امریکی سپریم کورٹ کے نو ججوں نے اپنا فیصلہ متفقہ کے بجائے اکثریتی رائے سے سنایا۔

نو میں سے پانچ ججوں نے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے اس سلسلے میں اپنے ابتدائی فیصلے پر عمل درآمد کے بعد ملکی عدلیہ کے حکم پر اس میں جو ترامیم کی تھیں، ان کے بعد ہی وہ سفری پابندیاں متعارف کرائی گئی تھیں، جو ابھی تک نافذالعمل ہیں۔

سپریم کورٹ کے ججوں کی اکثریت کے مطابق امریکا کے قومی سلامتی سے متعلق خدشات کی وجہ سے لگائی گئی یہ سفری پابندیاں اپنی موجودہ شکل میں جائز ہیں اور امریکی آئین یا قوانین کے تقاضوں سے متصادم نہیں ہیں۔

صدر ٹرمپ کی طرف سے عائد کردہ یہ پابندیاں اپنی موجودہ شکل میں گزشتہ برس دسمبر سے پوری طرح نافذ ہیں۔ ایسا اس وجہ سے ممکن ہو سکا تھا کہ تب سپریم کورٹ نے ملک کی تمام ذیلی عدالتوں کو اس سلسلے میں فیصلے کرنے سے روک دیا تھا۔ اس کی ضرورت اس لیے پڑی تھی کہ تب کئی ریاستوں میں ذیلی عدالتوں نے اپنے اپنے طور پر اس متنازعہ قانون کے متعدد حصوں پر عمل درآمد معطل کر دینے کے حکم سنائے تھے اور ملکی سطح پر سپریم کورٹ نے اس حوالے سے تب تک کوئی فیصلہ نہیں سنایا تھا۔

اس پالیسی کے تحت ڈونلڈ ٹرمپ نے مسلم اکثریتی آبادی والے پانچ ممالک، ایران، لیبیا، صومالیہ، شام اور یمن کے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی لگا دی تھی۔ اس کے علاوہ اکثریتی طور پر غیر مسلم آبادی والے دو دیگر ممالک بھی انہی پابندیوں سے متاثر ہوئے تھے، جو شمالی کوریا اور وینزویلا تھے۔

ان سات ممالک میں سے پانچ مسلم ریاستوں کے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی کے خلاف اس وجہ سے خاص طور پر احتجاج دیکھنے میں آیا تھا کہ تب مسلم دنیا میں بہت سے حلقوں نے اسے ٹرمپ کا ’مسلم مخالف‘ اقدام قرار دیا تھا۔ دوسری طرف خود ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ یہ پانچ ممالک ایسے ہیں، جو بدامنی، انتہا پسندی، خانہ جنگی یا دہشت گردی سے خاص طور پر متاثر تھے، اور وہاں سے آنے والوں کے باعث امریکا کے لیے اس کی قومی سلامتی کے خطرات پیدا ہو چکے تھے۔

صدر ٹرمپ کی عائد کردہ ان سفری پابندیوں کا جائز قرار دینے والے امریکی سپریم کورٹ کے اس تازہ لیکن حتمی فیصلے پر امریکا میں تارکین وطن، بہت سے قانونی حلقوں اور خاص طور پر متاثرہ مسلم ممالک سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن نے واضح طور پر اپنی ناامیدی کا اظہار کیا ہے۔ اس لیے کہ ان پابندیوں کی مدد سے نہ صرف ان ممالک کے شہریوں کو امریکا آنے سے روک دیا گیا ہے بلکہ بالواسطہ طور پر امریکا سے ایسے تارکین وطن کے ان کے آبائی ممالک کے سفر کا راستہ بھی بند کر دیا گیا ہے۔ اس لیے کہ اگر ان ممالک میں سے کسی کا کوئی شہری امریکا سے اپنے آبائی وطن کا سفر کرتا ہے، تو واپسی پر امریکی حکام اسے بھی امریکا میں داخل ہونے سے روک سکتے ہیں۔

م م / ش ح / اے پی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید