1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستافریقہ

ٹی ایل پی کے ساتھ حکومت کا نرم رویہ تنقید کی زد میں

عبدالستار، اسلام آباد
25 اکتوبر 2021

شیخ رشید کا کہنا ہے کہ کالعدم ٹی ایل پی چاہتی ہے کہ ان کے مطالبات کو پارلیمنٹ لے جایا جائے اور حکومت ان مطالبات کو پارلیمنٹ میں لے کر جائے گی۔  حکومت کے اس نرم رویے کو ناقدین ریاست و حکومت کی کمزوری قرار دے رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/429Yd
تصویر: Rana Sajid Hussain/Pacific Press/picture alliance

اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شیخ رشید نے کہا کہ ان کی ٹی ایل پی کے رہنما حافظ سعد رضوی سے ملاقات ہوئی ہے اور یہ کہ ان کی خواہش ہےکہ ٹی ایل پی سے جو معاملات ہیں، وہ طے ہو جائیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کالعدم تنظیم سے کچھ انڈر اسینڈنگ ہوئی ہے اور یہ کہ سعد رضوی کے اصرار پروہ مزاکراتی ٹیم کی سربراہی کررہے ہیں۔  ان کا دعویٰ تھا کہ ٹی ایل پی کے قائد کو دیگر کے مقابلے میں تعاون کرنے والا پایا اور یہ کہ وہ حکومت کے وعدہ پر پہرا دینگے۔ وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ ٹی ایل پی سے مزاکرات فورتھ شیڈول، مقدمات اور تنظیم کو کالعدم قرار دینے کے حوالے سے ہورہے ہیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ ان کی سعد رضوی سے دو مرتبہ ملاقات ہوئی لیکن یہ ملاقاتیں جیل میں نہیں بلکہ لاہور میں ہوئیں۔ ان کا دعویٰ تھا کہ حکومت کسی سے لڑائی جھگڑا نہیں چاہتی اور یہ کہ کسی کو بھی توڑ پھوڑ نہیں کرنا چاہیے۔

تنقید کا طوفان

شیخ رشید کے اس بیان اور حکومت کے نرم رویے پر کئی حلقوں میں تنقید ہورہی ہے۔ انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے وائس چیئرپرسن اسد بٹ کا کہنا ہے کہ ریاست نے انتہا پسندوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''حکومت کے اس اقدام سے دوسری انتہا پسند تنظیموں کے حوصلے بڑھیں گے اور وہ بھی ٹی ایل پی کی طرح حکومت وریاست کو بلیک میل کرینگے۔ پولیس اور رینجرز کے اہلکاروں کو اغوا کرینگے۔ شہروں کو بند کر کے اربوں روپے کا نقصان معیشت کو پہنچائیں گے اور طاقت کے بل بوتے پر اپنے مطالبات منوائیں گے۔‘‘

Pakistan Mehrere Tote bei Protesten von verbotener Islamistenpartei
تصویر: Arif Ali/AFP

نیشنل پارٹی کے رہنما سینیٹر اکرم بلوچ اسد بٹ کی بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''حکومت پہلے ان کو صحیح طریقے سے ڈیل نہیں کرتی اور بعد میں مسئلے کو پارلیمنٹ میں لانے کی بات کرتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ افغانستان میں صورت حال خراب ہے۔ بلوچستان میں بحران آیا ہوا ہے لیکن حکومت ٹی ایل پی کے مسئلے کو پارلیمنٹ میں لانا چاہتی ہے تاکہ دائیں بازو کی قوتوں کو خوش کیا جا سکے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ٹی ایل پی کے مطالبات نہیں ماننے چاہیے۔ ''انہیں قانونی عمل سے گزرنا چاہیے اور ملک کی خارجہ پالیسی کو سٹرکوں پر تشکیل دینے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ ہر طرح کی پالیسی کے لیے پارلیمنٹ ہے، کسی مسلح جتھے کو اس بات کی اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ طاقت کے بل بوتے پر ریاست کو ڈکٹیشن دے۔‘‘

ٹی ایل پی کی وارننگ

ادھر مرید کے سے ٹی ایل پی کے رہنما حکومت کو متنبہ کررہے ہیں کہ اگر ان کے مطالبات تسلیم نہیں کئے گئے تو پورے ملک میں مارچ ہو سکتے ہیں۔ ٹی پی ایل کے رہنما مفتی رضوی اور دیگر نے مرید کے میں کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کسی وعدہ خلافی کا سوچنے سے پہلے حکومت ہزار بار سوچ لے۔ رہنماوں کا مزید کہنا کہ اب اگر وعدہ خلافی ہوئی تو حالات کا ذمہ دار معاہدے کا اعلان کرنے والے عمران خان خود ہوں گے۔

مفتی وزیر نے حکومت کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے پاس منگل تک کا وقت ہے اور یہ کہ اس وقت تک اسے معاہدے پر سو فیصد عمل کرنا پڑے گا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ جب تک ان کے قائد حافظ سعد حسین رضوی آ کر اعلان نہیں کریں گے، وہ مرید کے سے نہیں اٹھیں گے اور مقررہ وقت گزرنے کے بعد مارچ اسلام آباد کی طرف کرینگے۔

تحریک لبیک کے پرتشدد مظاہرے

کارکان کی رہائی

ملک میں کچھ اس طرح کی بھی اطلاعات ہیں کہ حکومت نے ٹی ایل پی کے تین سو پچاس کارکنان کو رہا کیا ہے۔ اس بات کا اعلان کل شیخ رشید نے ایک ٹوئیٹ میں کیا تھا لیکن ٹی ایل پی کا دعویٰ ہے کہ ان کا کوئی کارکن رہا نہیں کیا گیا۔ ٹی ایل پی کے ایک رہنما نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا، ''ہماری اطلاعات تو یہ ہیں کہ حکومت نے ہمارے مزید کارکن گرفتار کر لیے ہیں لیکن ہم اپنے قائدین کے حکم کا انتظار کررہے ہیں اور ہم طرح کے حالات کے لیے تیار ہیں۔‘‘

عوام کی پریشانی

ٹی ایل پی کے احتجاج اور حکومت کی عدم توجہی کی وجہ سے عوام پریشان ہیں۔ راولپنڈی تین دن  اور لاہور کے عوام دو دن متاثر رہے اور مرید کے میں بھی دھرنے کے باعث غیر یقینی کیفیت ہے۔ وزیر اعظم کی ملک میں عدم موجودگی بھی تنقید کو ہوا دے رہی ہے۔