بین الاقوامی عدالت کی طرف سے ٹرمپ انتظامیہ کے فیصلے کی مذمت
7 فروری 2025بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) نے اپنے رکن ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے عائد کی گئی پابندیوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ آئی سی سی کے مطابق اس اقدام سے ''اس کے آزادانہ اور غیر جانبدارانہ عدالتی کام کو نقصان پہنچے گا۔‘‘
عالمی فوجداری عدالت کے سربراہ کی امریکہ اور روس پر تنقید
اسرائیلی وزیراعظم کے وارنٹ گرفتاری پر عالمی رہنما منقسم
وائٹ ہاؤس نے جمعرات چھ فروری کو اس حوالے سے ایک صدارتی حکم نامہ جاری کیا تھا، جو اس کے مطابق ''امریکہ اور ہمارے قریبی اتحادی اسرائیل کو نشانہ بنانے والے غیر قانونی اور بے بنیاد اقدامات‘‘ کے ردعمل میں جاری کیا گیا۔ یہ آئی سی سی کی جانب سے گزشتہ سال غزہ میں مبینہ جنگی جرائم پر اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے جانے کی طرف اشارہ تھا۔
نیدرلینڈز کے شہر دی ہیگ میں قائم اس بین الاقوامی عدالت نے کہا ہے کہ وہ اس اقدام کی 'مذمت‘ کرتی ہے۔ اس عدالت کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ عدالت اپنے اہلکاروں کے ساتھ مضبوطی سے کھڑی ہے اور دنیا بھر میں مظالم کے شکار لاکھوں بے گناہ متاثرین کو انصاف اور امید کی فراہمی جاری رکھنے کا عہد کرتی ہے۔
بیان میں کہا گیا، ''ہم اپنے 125 رکن ممالک، سول سوسائٹی اور دنیا کے تمام ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ انصاف اور بنیادی انسانی حقوق کے لیے متحد ہوں۔‘‘
ٹرمپ کے ایگزیکٹیو آرڈر میں لگائی گئی پابندیاں
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے جاری کردہ ایگزیکٹیو آرڈر میں کہا گیا ہے کہ امریکہ 'اپنی حد سے تجاوز‘ کے ذمہ داروں کے خلاف ٹھوس اور با معنی جوابی اقدامات کرے گا۔ ان اقدامات میں جائیداد اور اثاثوں کو منجمد کرنا اور آئی سی سی کے عہدیداروں، ملازمین اور ان کے رشتہ داروں کو امریکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہ دینا شامل ہوسکتا ہے۔ مزید یہ کہ محکمہ امریکی خزانہ اور محکمہ خارجہ اس بات کا تعین کریں گے کہ کن افراد اور تنظیموں پر پابندیاں عائد کی جائیں گی۔
انسانی حقوق کے اداروں کی طرف سے تنقید
انسانی حقوق کی تنظیموں نے امریکی صدر کے اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئی سی سی عہدیداروں کے خلاف امریکی پابندیاں دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر مظالم کے ذمہ داروں کے لیے ایک تحفہ ہوں گی۔
ہیومن رائٹس واچ میں انٹرنیشنل جسٹس کی ڈائریکٹر لز ایونسن نے ایک بیان میں کہا کہ پابندیاں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے ہیں نہ کہ ان لوگوں کے لیے جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کا احتساب کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
خیال رہے کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت کے حکام گزشتہ کئی مہینوں سے ایسی ممکنہ پابندیوں کی تیاری کر رہے تھے۔ عدالت کے دو اندرونی ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ جنوری میں عدالت نے عملے کو ان کی تنخواہوں پر تین ماہ کی پیشگی رقم دی تھی۔
پابندیوں سے بچنے کی کوشش میں ٹرمپ کے منتخب ہونے کے بعد سے عدالت کے عملے کے کم از کم دو سینئر ارکان استعفیٰ دے چکے ہیں۔
عدالت کی میزبانی کرنے والے ملک نیدرلینڈز نے بھی ٹرمپ کے حکم کی مذمت کی ہے۔ ڈچ وزیر خارجہ کیسپر ویلڈکیمپ نے ایک بیان میں کہا، ''نیدرلینڈز کو آئی سی سی پر پابندیاں عائد کرنے کے امریکی ایگزیکٹیو آرڈر پر افسوس ہے۔ اس عدالت کا کام سزا سے استثنیٰ کے خلاف جنگ میں ضروری ہے۔‘‘
یہ دوسرا موقع ہے جب ٹرمپ نے بین الاقوامی فوجداری عدالت کو نشانہ بنایا ہے۔ اپنے گزشتہ دور اقتدار میں بھی انہوں نے افغانستان میں ہونے والے جرائم کی تحقیقات پر سابق پراسیکیوٹر فاتو بینسودا اور ان کے ایک نائب پر پابندیاں عائد کی تھیں، تاہم صدر جو بائیڈن نے 2021 میں عہدہ سنبھالنے کے بعد یہ پابندیاں اٹھا لی تھیں۔
ا ب ا/ک م، م م (ایسوسی ایٹڈ پریس)