1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

يروشلم: یہودیوں کی عبادت گاہ پر حملہ، عالمی سطح پر مذمت

عاصم سليم18 نومبر 2014

يروشلم ميں آج یہودیوں کی ایک عبادت گاہ پر ہونے والے حملے کی عالمی سطح پر مذمت جاری ہے۔ اسرائيلی وزيراعظم بينجمن نيتن ياہو نے واقعے کا سختی سے نوٹس لينے کا کہا ہے جبکہ امريکی وزير خارجہ نے اسے دہشت گردی سے تعبير کيا ہے۔

https://p.dw.com/p/1DpDe
تصویر: Reuters/R. Zvulun

يروشلم کے مغربی حصے کے ايک انتہائی قدامت پسند محلے ميں منگل اٹھارہ نومبر کی صبح دو فلسطينيوں نے ايک عبادت گاہ ميں داخل ہو کر پستول اور کلہاڑيوں کی مدد سے حملہ کر ديا۔ حملے ميں چار اسرائيلی ہلاک اور ديگر چھ زخمی ہو گئے جبکہ بعد ازاں مقامی پوليس نے کارروائی کرتے ہوئے دونوں حملہ آوروں کو بھی ہلاک کر ديا۔ تازہ اطلاعات موصول ہو رہی ہيں کہ عبادت گاہ میں ہلاک ہونے والے چارروں افراد دوہری شہريت کے حامل تھے۔ اسرائيلی شہريت کے علاوہ ان ميں سے ايک برطانوی اور تين امريکی شہريت بھی رکھتے تھے۔

بينجمن نيتن ياہو نے واقعے کا سختی سے نوٹس لينے کا کہا ہے
بينجمن نيتن ياہو نے واقعے کا سختی سے نوٹس لينے کا کہا ہےتصویر: AFP/Getty Images/G. Tibbon

پوليس ترجمان لوبا سامری نے بتايا کہ يہ حملہ مقامی وقت کے مطابق صبح سات بجے سے کچھ ہی لمحات قبل ’ہر نوف‘ کے علاقے ميں کيا گيا۔ حملہ آوروں کا تعلق مشرقی يروشلم سے تھا اور وہ رشتہ دار تھے۔

جرمن نيوز ايجنسی ڈی پی اے کی رملہ سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق ’پاپولر فرنٹ فار دا لبريشن آف فلسطين‘ نامی ايک جنگجو گروپ نے اس حملے کی ذمہ قبول کر لی ہے۔

بعد ازاں اسرائيلی وزير اعظم بينجمن نيتن ياہو نے اس واقعے پر شديد برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ يہ فلسطينی اتھارٹی کے صدر محمود عباس اور فلسطينی تنظيم حماس کی ’اشتعال انگيزی‘ کا براہ راست نتيجہ ہے۔ نيتن ياہو نے بين الاقوامی برادری پر بھی الزام عائد کيا کہ وہ اس مبينہ اشتعال انگيزی کو نظر انداز کرتی آئی ہے۔ آج کے بيان ميں اسرائيلی وزير اعظم نے يہ بھی کہا کہ وہ عبادت گاہ ميں حملے کا سختی سے نوٹس ليں گے۔

جواباﹰ فلسطينی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے يروشلم ميں اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسرائيلی حکام پر زور ديا کہ وہ بھی مذہبی اہميت کے حامل مقامات پر اشتعال انگيزی سے پرہيز کريں۔ عباس کے دفتر سے جاری کردہ بيان ميں مسجد کے ’قبضے‘ کے خاتمے اور اسرائيلی وزراء کے متنازعہ بيانات کا سلسلہ روکنے کا کہا گيا ہے۔

يورپی يونين کی خارجہ پاليسی کی سربراہ فيديريکا موگرينی
يورپی يونين کی خارجہ پاليسی کی سربراہ فيديريکا موگرينیتصویر: AFP/Getty Images/T. Coex

دريں اثناء امريکی وزير خارجہ جان کيری نے بھی حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے دہشت گردی و ظلم سے تعبير کيا ہے۔ لندن ميں اپنے برطانوی ہم منصب فلپ ہيمنڈ کے ساتھ ملاقات سے قبل انہوں نے صحافیوں سے بات چيت کرتے ہوئے فلسطينی قيادت پر زور ديا کہ وہ بھی حملے کی مذمت کرے۔ ايسی اطلاعات بھی ہيں کہ کيری نے معاملے پر تبادلہ خيال کے ليے صدر محمود عباس سے بذريعہ ٹيلی فون رابطہ کيا اور انہيں کشيدگی ميں کمی لانے کے ليے اقدامات اٹھانے کے ليے کہا۔

برطانوی وزير اعظم ڈيوڈ کيمرون نے بھی اپنے ايک ٹوئٹر پيغام ميں لکھا کہ وہ حملے سے ’حيران زدہ‘ ہيں اور انہوں نے ہلاک شدگان کے اہل خانہ کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کيا۔

يورپی يونين کی خارجہ پاليسی کی سربراہ فيديريکا موگرينی نے بھی حملے کی سخت الفاظ ميں مذمت کرتے ہوئے اسے دہشت گردی کا اقدام قرار ديا ہے۔ موگرينی نے علاقائی رہنماؤں پر زور ديا ہے کہ وہ پر امن رہيں اور کشيدگی ميں کمی لانے کے ليے اقدامات کريں۔ يورپی يونين کی اس اعلی اہلکار نے خبردار کيا ہے کہ اگر متعلقہ حکام نے صورتحال کو بہتر بنانے کے ليے فوری اقدامات نہ کيے، تو پر تشدد کارروائيوں کا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔