1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

وینٹی لیٹرز کی کمی دور کرنے کے لیے پاکستانی حکومت کے اقدامات

29 مارچ 2020

دنیا بھر میں کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے بحران کی وجہ سے وینٹی لیٹرز کی مانگ میں بہت اضافہ ہو گیا ہے۔ صرف پاکستان اور بھارت کو ہی نہیں بلکہ برطانیہ اور امریکا سمیت دنیا کے بہت سے ملک اسی وجہ سے پریشانی کا شکار ہیں۔

https://p.dw.com/p/3aAte
China Wuhan Krankenhaus Behandlung Coronavirus Patient
تصویر: picture-alliance/Xinhua/X. Yijiu

پاکستان میں نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل محمد افضل کا کہنا ہے کہ ملک میں اس وقت 2200 کے قریب وینٹی لیٹرز موجود ہیں۔ وہ کورونا کے بحران کا مقابلہ کرنے کے لیے مزید دس ہزار وینٹی لیٹرز خریدنا چاہتے ہیں لیکن عالمی سطح پر وینٹی لیٹرز کی قلت کی وجہ سے انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس لیے ایک طرف وہ پرانے وینٹی لیٹرز کو ٹھیک کروا رہے ہیں تو دوسری طرف چین سے نئے وینٹی لیٹرز حاصل کر رہے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ آئندہ چند ہفتوں میں وہ ایک ہزار کے قریب نئے وینٹی لیٹرز حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

وینٹی لیٹرز کی عدم دستیابی

پاکستان میں میڈیکل کا سامان امپورٹ کرنے والی 250 قومی اور بین الاقوامی کمپنیوں کی نمائندہ رجسٹرڈ تنظیم ہیلتھ کیئر ڈیوائسز ایسوسی ایشن پاکستان کے چیئرمین مسعود احمد نے ڈی ڈبلیو سے ایک خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ اس وقت پاکستان میں بائیس کمپنیاں وینٹی لیٹرز درآمد کر رہی ہیں اور اس وقت پاکستان میں سرکاری اور نجی ہسپتالوں میں 2800 کے لگ بھگ وینٹی لیٹرز موجود ہیں، ''اگر ہم مبالغے سے کام لے کر اس تعداد کو تین یا چار ہزار بھی تصور کر لیں تو پھر بھی یہ تعداد موجودہ حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے بہت ہی کم ہے۔‘‘

BG Wuhan, Epizentrum des chinesischen Coronavirus-Ausbruchs
دنیا بھر میں کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے بحران کی وجہ سے وینٹی لیٹرز کی مانگ میں بہت اضافہ ہو گیا ہے۔تصویر: Reuters/China Daily

وینٹی لیٹرز کی کمی دور کرنے کے لیے حکومتی اقدامات

مسعود احمد کے بقول پاکستان میں وینٹی لیٹرز امریکا، چین، جرمنی، سوئٹزرلینڈ، اٹلی اور یو کے سمیت مختلف ملکوں سے امپورٹ کیے جاتے ہیں، لیکن اس وقت چین کے علاوہ کہیں سے بھی یہ نہیں مل رہے۔  ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی مارکیٹ میں موجود تمام وینٹی لیٹرز حکومت نے اٹھا لیے ہیں اور مغربی ممالک نئے آرڈرز کی سپلائی کے لیے 14 سے 16 ہفتے کا ٹائم دے رہے ہیں جبکہ چینی وینٹی لیٹرز 15 سے 30 دنوں کے اندر مل رہے ہیں: ''پاکستان کی حکومت اس مسئلے کو بہت بہتر انداز میں حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ این ڈی ایم اے نے ہمیں کہا ہے کہ آپ وینٹی لیٹرز منگواؤ ہم ون ونڈو آپریشن کے ذریعے اسے آپ سے خرید لیں گے، وینٹی لیٹرز سمیت شعبہ صحت میں استعمال ہونے والی 62  مصنوعات پر تین ماہ کے لیے تمام ٹیکسز ہٹا دیے گئے ہیں۔ اسٹیٹ بینک نے بھی ہیلتھ امپورٹرز کے لیے مراعات کا اعلان کیا ہے، میری اطلاع کے مطابق اب تک نجی شعبے کی طرف سے  پانچ ہزار سے زائد وینٹی لیٹرز کے لیے آرڈرز دیے جا چکے ہیں۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں ایسوسی ایشن کے چئیرمین کا کہنا تھا کہ مختلف معیار کے حساب سے ایک وینٹی لیٹر کی قیمت 20 سے 40 لاکھ روپے کے درمیان ہوتی ہے۔ ذخیرہ اندوزی کے حوالے سے پوچھے جانے والے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اگلے چند ہفتوں میں نئے وینٹی لیٹرز پاکستان پہنچنا شروع ہو جائیں گے اس لیے جن لوگوں نے ٹیکس ادا کر کے مہنگے وینٹی لیٹرز خریدے تھے وہ انہیں زیادہ دیر ذخیرہ نہیں کر سکیں گے: ''پاکستان میں وینٹی لیٹرز سیکٹر کی سالانہ گروتھ 15 فیصد کے قریب ہے۔ ہم تقریباﹰ 95 فیصد طبی آلات باہر سے منگواتے ہیں۔ بیرونی دنیا پر اس انحصار میں کمی لائی جانی چاہیے اور زندگی بچانے والے آلات کو ٹیکسوں میں مستقل رعایت ملنی چاہیے۔‘‘

پرانے وینٹی لیٹرز کی مانگ میں اضافہ

الخدمت ہیلتھ فاؤنڈیشن کے منیجنگ ڈائریکٹر سفیان احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ نئے وینٹی لیٹرز کی عدم دستیابی کی وجہ سے مارکیٹ میں پرانے، استعمال شدہ لیکن ریفربشڈ وینٹی لیٹرز کا کام بھی زوروں پر ہے۔ ان کے بقول ان استعمال شدہ وینٹی لیٹرکی قیمت جو چند دن پہلے تک تین سے چار لاکھ روپے تھی اب 12 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ ان کے بقول الخدمت نے اپنے جن 10 ہسپتالوں کو کورونا کے مریضوں کےعلاج کے لیے وقف کیا ہے ان کے لیے ہم نے حال ہی میں 30 وینٹی لیٹرز خریدے ہیں لیکن اس سلسلے میں ایک بڑا مسئلہ ان افراد کی تربیت کا ہے جنہوں نے زندگی بچانے والی اس مشین کو استعمال کرنا ہے،  ''اس مقصد کے لیے ہمارے ڈاکٹرز اور ماہرین نے گائیڈ لائنز تیار کر لی ہیں اور ہم سوموار 30 مارچ سے اس ضمن میں آن لائن تربیتی کلاسیں شروع کر رہے ہیں، ہم اپنی اس سہولت کو سرکاری ہسپتالوں کے ساتھ بھی شئیر کریں گے۔‘‘

پاکستان میں ماہرین کا خیال ہے کہ کورونا بحران سے پیدا ہونے والی صورتحال کا ایک اچھا پہلو یہ ہے کہ پاکستان کے ہیلتھ سیکٹر کی کیپیسٹی بلڈنگ  شروع ہو گئی ہے اور آئندہ کسی بحران سے بچنے کے لیے ہمیں صحت کے شعبے کی طرف ترجیحی طور پر اور دیانت دارانہ توجہ دینا ہوگی۔ ایک خاتون صحافی نے اپنے ایک حالیہ کالم میں لکھا ہے کہ جس دنیا میں 13,890 جوہری ہتھیار ہیں اس دنیا میں ایک لاکھ افراد کے لیے محض ایک وینٹی لیٹر ہے۔

جرمنی: کورونا وائرس دیہی علاقوں کے ڈاکٹروں کے لیے ایک چیلنج

ڈی ڈبلیو کے ایڈیٹرز ہر صبح اپنی تازہ ترین خبریں اور چنیدہ رپورٹس اپنے پڑھنے والوں کو بھیجتے ہیں۔ آپ بھی یہاں کلک کر کے یہ نیوز لیٹر موصول کر سکتے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں