1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستجرمنی

وسطی ایشیا کے ساتھ تعلقات ’جرمنی کا اسٹریٹجک ہدف‘ ہیں، شولس

17 ستمبر 2024

قازقستان کے دورے پر موجود جرمن چانسلر نے وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کی خواہش کا اظہار کیا۔ یوکرینی جنگ کے بعد اس خطے میں برلن حکومت کی ترجیحات میں تبدیلی آئی ہے۔

https://p.dw.com/p/4kj8w
شولس نے ایک سال قبل وسطی ایشیا کے پانچ ممالک کو اکٹھا کرنے والے پہلے سربراہی اجلاس کی میزبانی کی تھی
شولس نے ایک سال قبل وسطی ایشیا کے پانچ ممالک کو اکٹھا کرنے والے پہلے سربراہی اجلاس کی میزبانی کی تھیتصویر: Michael Kappeler/dpa/picture alliance

جرمن چانسلر اولاف شولس  نے آج 17 ستمبر بروز منگل وسطی ایشیائی جمہوریاؤں کے ساتھ تعلقات کے فروغ کو ''جرمنی کے لیے اسٹریٹجک ہدف‘‘ قرار دیا۔ جرمن سربراہ حکومت ایک علاقائی سربراہی اجلاس کے لیے قازقستان کا دورے پر ہیں۔

 شولس نے قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں کہا، ''ہمارے معاشروں کے درمیان پہلے سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی تبادلے نہیں ہوا کرتے  تھے لیکن اب یہ  مسلسل بڑھ رہے ہیں۔‘‘ ان کامزید کہنا تھا،  ''ہم اسے جاری رکھنا چاہتے ہیں اور اسے مزید تیز کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

 جرمن سربراہ حکومت ایک علاقائی سربراہی اجلاس کے لیے قازقستان کا دورے پر ہیں
جرمن سربراہ حکومت ایک علاقائی سربراہی اجلاس کے لیے قازقستان کا دورے پر ہیںتصویر: Michael Kappeler/dpa/picture alliance

شولس نے ایک سال قبل وسطی ایشیا کے پانچ ممالک کو اکٹھا کرنے والے پہلے سربراہی اجلاس میں قازقستان، ازبکستان، کرغزستان، تاجکستان اور ترکمانستان کے ساتھ ایک اسٹریٹجک شراکت داری قائم کی تھی۔ شولس کا کہنا تھا، ''خاص طور پر عالمی غیر یقینی صورتحال کے دور میں، ہمیں قریبی اور قابل بھروسہ بین الاقوامی شراکت داروں کی ضرورت ہے۔‘‘

قازق صدر قاسم جومارت توکایف نے کہا کہ توانائی کے شعبے میں تعاون کا جرمنی کے ساتھ تعلقات میں ''کلیدی کردار‘‘ ہے۔  انہوں نے جرمن کمپنیوں کو اپنے ملک میں موجود دھاتوں کے دیگر ذخائر کی تلاش اور لیتھیم کی کان کنی میں حصہ لینے کی دعوت بھی دی، جو کہ بیٹریوں کی پیداوار کے لیے بہت ضروری ہے۔

یوکرینی جنگ کے آغاز کے بعد سے وسط ایشیا کے لیے برلن حکومت کی ترجیحات میں تبدیلی آئی ہے
یوکرینی جنگ کے آغاز کے بعد سے وسط ایشیا کے لیے برلن حکومت کی ترجیحات میں تبدیلی آئی ہےتصویر: Michael Kappeler/dpa/picture alliance

 اگرچہ یہ پانچوں ممالک سابق سوویت جمہوریہ کا حصہ رہ چکے ہیں اور اب بھی روس کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتے ہیں،  تاہم وہ وہ اپنے طاقتور پڑوسی پر انحصار کم کرنے کے لیے مغربی ممالک کے ساتھ  بھی تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ان پانچوں ممالک کی مجموعی آبادی 80 ملین کے قریب ہے، جو جرمنی  کی آبادی سے کچھ کم ہے۔ تاہم ان کا رقبہ تقریباً پوری یورپی یونین کے علاقے کے برابر ہے۔ حالیہ دہائیوں میں جرمنی نے دو بڑی طاقتوں یعنی چین اور روس کے ساتھ قریبی اقتصادی تعلقات کےباعث اس خطے کے باقی ممالک کو بڑی حد تک نظر انداز کیے رکھا۔ لیکن یوکرین پر روسی فوجی حملے نے برلن اور ماسکو کے مابین تعلقات کو خراب کر دیا۔

 ش ر/ا ب ا (ڈی پی اے)