واٹس ایپ مودی حکومت کے خلاف عدالت میں
26 مئی 2021فیس بک کی ملکیت والی میسیجنگ کمپنی واٹس ایپ نے نئے ڈیجیٹل ضابطوں کے سلسلے میں اپنے اقدامات سے بھارتی حکومت کو آگاہ کرنے کی آخری تاریخ 25 مئی بروز منگل کو عدالت میں ان ضابطوں کے خلاف عرضی دائر کی ہے، جن میں پیغامات بھیجنے والے بنیادی شخص یا افراد کا 'پتہ‘ لگانا لازمی قرار دیا گیا ہے۔
امریکی کمپنی نے آج بدھ کے روز جاری ایک بیان میں کہا،”بات چیت (Chats)کا 'پتہ‘ لگانے کو یہ لازمی قرار دینے کا مطلب یہ ہوگا کہ واٹس ایپ پر بھیجے گئے ایک ایک میسج پر نگاہ رکھی جائے۔ یہ عوام کے پرائیویسی کے بنیادی حق کے خلاف ہوگا اور اس سے ایک فرد کی دوسرے فرد سے رازداری ختم ہو جائے گی۔"
’نئے ضابطے بھارتی آئین کے خلاف‘
کیلیفورنیا سے کام کرنے والے فیس بک کے ایک ترجمان نے کہا، ”ہم دنیا بھر میں سول سوسائٹی اور ماہرین کے ساتھ مل کراس امر کو یقینی بنانے کے لیے مسلسل کام کررہے ہیں کہ صارفین کی پرائیویسی کی خلاف ورزی نا ہونے پائے۔ اس دوران ہم بھارت سرکار کے ساتھ بھی بات چیت کرتے ہوئے اس مسئلے کا عملی حل تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ عوام کو محفوظ رکھتے ہوئے، حکومت کی جائز قانونی درخواستوں کا کیسے جواب دیا جائے۔"
دہلی ہائی کورٹ میں دائر عرضی میں عدالت عالیہ سے یہ ہدایت دینے کی درخواست کی گئی ہے کہ نئے ضابطے بھارتی آئین کے تحت شہریوں کو حاصل پرائیوسی کے حقوق کے خلاف ہیں۔ کیونکہ اس میں سوشل میڈیا کمپنیوں سے کہا گیا ہے کہ حکام جب بھی ان سے 'اطلاع دینے والے پہلے شخص‘ کے بارے میں معلومات طلب کریں تو کمپنی کو یہ معلوما ت فراہم کرنی ہوگی۔
واٹس ایپ کا کہنا ہے کہ اس کے پلیٹ فارم پر بھیجے جانے والے پیغام اس کے بھیجنے اور وصول کرنے والے کے درمیان تک محدود رہتے ہیں اور اگر نئے قانون پر عمل کیا گیا تو اس سے پیغامات بھیجنے اور وصول کرنے والوں کے درمیان رازداری ختم ہوجائے گی۔
واٹس ایپ نے اپنی عرضی میں بھارتی سپریم کورٹ کے سن 2017 کے ایک فیصلے کا حوالہ دیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ اگر قانونی طورپر انتہائی ضروری نہ ہوتو بہر صورت پرائیویسی کی حفاظت کی جائے۔
مودی حکومت کی وارننگ
مودی حکومت نے 25 فروری کو نوٹس جاری کرکے فیس بک، ٹوئٹر اور اس جیسے دیگر بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے لیے ایک نئے قانون کے تحت ضابطوں پر عمل درآمد کے حوالے سے تین ماہ کے اندر اپنا جواب دینے کی ہدایت کی تھی۔ اور ایسا نہ کرنے پر ان کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دینے کی دھمکی دی تھی۔ مقررہ مدت تک صرف ایک بھارتی کمپنی کوو (KOO) نے جواب دیا۔
فیس بک نے منگل کے روز ایک بیان جاری کرکے نئے ڈیجیٹل قانون پر عمل کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ بعض امور پر غورو خوض کر رہی ہے نیز اس کے لیے حکومت کے ساتھ مزید تبادلہ خیال کی ضرورت ہے۔
دوسری طرف گوگل نے اپنے بیان میں مقامی قوانین پر عمل کرنے کی اپنی 'طویل تاریخ‘ کا حوالہ دیتے ہوئے بھارتی حکومت کو یقین دہانی کرائی ہے کہ قانونی ضابطوں پر عمل درآمدیقینی بنانے کی اس کی کوششیں جاری رہیں گی۔
ٹوئٹر نے اب تک کوئی جواب نہیں دیا ہے۔ کانگریس کے 'ٹول کٹ‘ معاملے پر اس کی مودی حکومت کے ساتھ گزشتہ کئی دنوں سے رسہ کشی جاری ہے۔ ٹوئٹر نے بی جے پی کے سینئر رہنما اور ترجمان سمبت پاترا کے ایک ٹوئٹ پر Manipulated Media کا ٹیگ لگا دیا تھا۔
نئے ضابطے کیا ہیں؟
مودی حکومت نے 25 فروری کو ڈیجیٹل میڈیا ایتھکس کوڈ کے حوالے سے نئے ضابطے نوٹیفائی کیے تھے۔ اس میں سوشل میڈیا پلیٹ فارموں کے لیے لازمی قرار دیا گیا ہے کہ وہ ”غیر قانونی'' پیغامات پھیلانے والے 'اصل فرد‘ کی نشاندہی کریں۔ ایک مقررہ وقت کے اندر ایسے پیغامات کو ہٹائیں، شکایتوں کے ازالے کا طریقہ کار تیار کریں اور حکومتی تفتیشی ایجنسیوں کی مدد کریں۔
سوشل میڈیا کمپنیوں کو بھارت میں اپنے افسران کے نام، پتے اور ان کی دیگر تفصیلات فراہم کرنے کی بھی ہدایت دی گئی ہے۔ ان کمپنیوں کو ماہانہ رپورٹ دینی ہو گی اور یہ بتانا ہو گا کہ کتنی شکایتیں موصول ہوئیں اور ان میں سے کتنی شکایتوں کا ازالہ کیا گیا۔
بھارت کے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت کے مطابق 21 فروری سن 2021 تک ملک میں واٹس ایپ استعمال کرنے والوں کی تعداد 53 کروڑ، یو ٹیوب کے صارفین کی تعداد 44کروڑ 80 لاکھ، فیس بک استعمال کرنے والوں کی تعداد 41کروڑ، انسٹاگرام استعمال کرنے والوں کی تعداد21 کروڑ اور ٹوئٹر استعمال کرنے والوں کی تعداد 17 کروڑ پچاس لاکھ تھی۔