1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نیٹو سپلائی کی بحالی کے لیے پاک امریکا مذاکرات میں تیزی

2 جولائی 2012

پاکستان اور امریکا کے درمیان نیٹو سپلائی کی بحالی کے لیے مذاکرات کےعمل میں تیزی آ گئی ہے۔ افغانستان میں نیٹو اور ایساف افواج کے کمانڈر جان ایلن نے گزشتہ چار روز میں دو مرتبہ پاکستان کا دورہ کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/15Pq6
تصویر: DW

پاکستانی دفتر خارجہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ نیٹو سپلائی لائن کی بحالی کے لیے جاری مذاکرات میں قابل ذکر پیشرفت ہوئی ہے۔ امریکی مذاکراتی ٹیم نے اس حوالے سے ایک دستاویز بھی پاکستانی حکام کے حوالے کی ہے۔ جس پرحتمی فیصلہ صدر آصف علی زرداری کے دورہء لندن سے وطن واپس پہنچنے پر کیا جائے گا۔

اتوار کی شام پاکستان پہنچنے کے بعد امریکی وفد نے پاکستانی حکام کے ساتھ 6 گھنٹے طویل مذاکرات کیے۔ ان مذاکرات میں امریکا کی نمائندگی نائب وزیر خارجہ تھامس نائیڈ، جنرل جان ایلن اور پاکستان میں امریکی سفیر کیمرون منٹر نے کی۔ پاکستان کی جانب سے وزیر خارجہ حنا ربانی کھر، وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ اور بری فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے مذاکرات میں شرکت کی۔ انہی مذاکرات کے دوران امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے پاکستانی وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف سے ٹیلی فون پر بات بھی کی۔

NATOs LKW und Container in Peschawar Pakistan
نیٹو سپلائی کی بندش کو سات ماہ ہو چکے ہیںتصویر: DW


امریکی وزیر خارجہ نے انہیں وزیراعظم منتخب ہونے پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ امریکا اور پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتحادی ہیں اور وہ یقیناً دشمن کو شکست دیں گے۔ پاکستان میں ان مذاکرات کے حوالے سے سرکاری سطح پر تو خاموشی ہے تاہم تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ نیٹو سپلائی لائن کی بندش کے عرصے میں طوالت سے امریکی انتظامیہ کی تشویش بڑھ رہی ہے۔

اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے ڈائریکٹر نجم رفیق کا کہنا ہے، ’’امریکیوں کا پہلے یہ خیال تھا کہ امداد اورکولیشن فنڈ بند کر کے پاکستان پر دباؤ ڈالا جائے تا کہ پاکستان امریکا کی بات مان جائے۔ لیکن چونکہ نیٹو سپلائی لائن کی بندش کو 7 ماہ ہو چکے ہیں اور امریکا نے دیکھا ہے کہ پاکستان واقعی اپنے مؤقف پر ڈٹا ہوا ہے تو میرے خیال میں بہت سے امریکیوں میں اب یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ اگر امریکا چاہتا ہے کہ اس کے فوجی افغانستان سے واپس جائیں تو اسے ہر حال میں پاکستان سے معافی مانگنی ہی پڑے گی۔‘‘


پاکستان نے نیٹو افواج کی جانب سے گزشتہ سال نومبر میں سلالہ چیک پوسٹ پر حملے میں اپنے 24 فوجیوں کی ہلاکت کے بعد نیٹو سپلائی بند کر رکھی ہے۔ اس بندش کے خاتمے کے لیے پاکستانی پارلیمان نے جو سفارشات پیش کی تھیں ان میں امریکا سے سلالہ کے واقعے پر غیر مشروط معافی مانگنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ امریکی انتظامیہ اب تک یہ معافی مانگنے سے انکاری رہی ہے۔

Pakistanische Außenministerin Hina Rabbani Khar in Kabul, Afghanistan
پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربانی کھرتصویر: AP

پاکستان میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی نصیر بھٹہ کا کہنا ہے کہ حکمران پارلیمنٹ کو نظر انداز کرکے کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا، ’’نیٹو سپلائی ہمارا عوامی اور قومی مسئلہ ہے اور اس کے اوپر اگر حکومت نے کوئی فیصلہ کرنا ہے تو وہ مقبول فیصلہ ہونا چاہیے۔ اگر قوم کی امنگوں کے خلاف کوئی فیصلہ کیا گیا یا کسی کے سامنے گھنٹے ٹیکے گئے تو یہ فیصلہ قطعاً قابل قبول نہیں ہوگا۔ جب تک نیٹو والے معافی نہیں مانگتے اس وقت تک نیٹو سپلائی کھولنے کا کوئی راستہ نہیں بنتا۔ نیٹو سپلائی کی بحالی اس بات سے مشروط ہو چکی ہے کہ وہ معافی مانگیں اور اگر معافی لیے بغیر سپلائی لائن کھول دی گئی تو یہ بہت بدقسمتی ہوگی۔‘‘

نیٹو سپلائی لائن کی بحالی کے معاملے پر پاکستان کی حکومت کو اندرون ملک دائیں بازو کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی طرف سے سخت دباؤ کا سامنا رہا ہے۔ تاہم تجزیہ نگار نجم رفیق کا کہنا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ اس احتجاج میں بھی جان باقی نہیں رہے گی۔

پورٹ : شکور رحیم ، اسلام آباد

ادارت: عاطف بلوچ